مسلمانوں پر پابندی نہیں : ٹرمپ

جہاں صدر صاحب کے بزنس وہاں نرمی؟
حیرت انگیز بات یہ ہیکہ ایسے کئی مسلم اکثریتی ممالک ہیں جہاں ٹرمپ کا کاروبار پھیلا ہوا ہے اور جہاں ان ممالک کو کبھی نہ کبھی دہشت گردی کا سامنا رہا ہے، ان تمام ممالک کے نام ٹرمپ کی اس فہرست میں شامل نہیں ہیں جبکہ ایران، عراق، شام، صومالیہ، سوڈان اور لیبیا ایسے ممالک ہیں جہاں کاروباری طور پر ٹرمپ کو کچھ لینا دینا نہیں ہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہوئی ایک رپورٹ میں یہ بات کہی گئی ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ وائیٹ ہاؤس نے طاقتور اور امیر ترین مسلم ممالک کے شہریوں کو امریکہ نہ آنے کا حکم جاری نہ کرتے ہوئے ان کی ناراضگی مول لینے کا جوکھم نہیں اٹھایا ہے جیسے مصر ۔ انہیں بار بار اس سوال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کہ آیا انہوں نے قواعد و ضوابط کی تشکیل اپنے ذاتی مفاد کو مدنظر رکھ کر کی ہے؟ ٹرمپ نے استدلال پیش کیا ہیکہ دنیا میں 40 سے زائد ممالک ایسے ہیں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور ان کے حکمنامہ کا ان ممالک پر اطلاق نہیں ہوا ہے تو پھر کیسے کہا جاسکتا ہیکہ وہ مسلم مخالف ہیں۔ ان کا نکتہ سمجھنے میں لوگ شاید قصداً تاخیر سے کام لے رہے ہیں جبکہ بات بہت سیدھی اور صاف ہیکہ ایسے مسلم ممالک جہاں دہشت گردوں کی پناہ گاہیں ہیں اور جن کے بارے میں یہ شبہ ہوکہ پناہ گزینوں کے روپ میں وہ امریکہ میں داخل ہوجائیں گے، صرف ان عناصرکی روک تھام ہماری اولین ترجیح ہے۔

واشنگٹن ۔ 30 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو اس وقت سات مسلم ممالک سے امریکہ آنے والے شہریوں پر پابندی کا حکمنامہ دستخط کرنے پر شدید تنقیدوں کا سامنا ہے تاہم ایسا محسوس ہوتا ہیکہ انہیں ان تنقیدوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ ٹرمپ صدر بننے سے قبل انتخابی مہمات کے دوران بھی ہمیشہ تنازعات میں گھرے رہے اور اب صدر بنتے ہی انہوں نے سات مسلم اکثریتی ممالک سے امریکہ آنے والے مسلمانوں پر پابندی کا حکم جاری کرکے پوری دنیا کو حیرت زدہ کردیا ہے جبکہ خود انہیں یہ حکمنامہ کسی بھی زاویئے سے متنازعہ نظر نہیں آرہا ہے۔ وہ یہ کہتے نہیں تھک رہے ہیں کہ انہوں نے جو فیصلہ کیا ہے اس کی عالمی سطح پر پذیرائی ہورہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مجموعی طور پر مسلمانوں کی امریکہ آمد پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ ایرپورٹس پر دیکھ لیں یا کہیں اور اس کا نظارہ کرلیں حالانکہ حقیقت یہ ہیکہ جس وقت وہ اخباری نمائندوں سے بات کررہے تھے اس وقت انہیں یہ گمان تھا کہ شاید ایرپورٹس پر ان کے حکم کی تعمیل ہورہی ہے جبکہ ایرپورٹس پر ہر طرف افراتفری کا عالم ہے اور لوگ الجھن کا شکار ہیں جبکہ ملک کے کئی ایرپورٹس پر ٹرمپ کے حکمنامہ کے خلاف احتجاجی مظاہرے بھی ہورہے ہیں۔ ٹرمپ کا استدلال ہیکہ انہوں نے کچھ سفری تحدیدات عائد کی ہیں۔ مسلمانوں کے امریکہ میں داخلہ پر پابندی عائد نہیں کی ہے۔ امریکہ کے علاوہ جرمنی اور فرانس بھی دو ایسے ممالک ہیں جہاں پناہ گزینوں کی کثیر تعداد پہنچ رہی ہے لیکن یوروپ کے ان دونوں ممالک نے اس نوعیت کی کوئی پابندی عائد نہیں کی ہے جو ٹرمپ نے صدر بنتے ہی عائد کردی ہے۔ واشنگٹن میں دوسرے روز بھی وائیٹ ہاؤس کے روبرو احتجاج کا سلسلہ جاری رہا جبکہ ایرپورٹس پر بھی احتجاجی مظاہرے جاری ہیں جہاں احتجاجی ٹرمپ کے متنازعہ حکمنامہ سے متاثر ہونے والوں کی تائید میں اظہاریگانگت کررہے ہیں اور بڑے بڑے امریکی پرچم کے علاوہ پلے کارڈس بھی لہرا رہے ہیں ۔ مسلسل نعرہ بازی کررہے ہیں کہ امریکہ میں نفرت نہیں چلے گی۔ عوام متحد ہیں انہیں منتشر نہیں کیا جاسکتا۔ پناہ گزینوں کا امریکہ میں خیرمقدم ہے وغیرہ جبکہ دوسری طرف وائیٹ ہاؤس کا استدلال ہیکہ امتناع صرف اس لئے عائد کیا گیا ہیکہ امریکہ نہیں چاہتا کہ جو صورتحال اس وقت فرانس، جرمنی اور بلجیم میں ہے وہی صورتحال وہاں بھی پیدا ہوجائے۔