مسلمانوں سے مایاوتی کی اپیل کا مغربی یوپی میں رائے دہندوں کے اس تناسب سے ہوجائے گا اندازہ۔

سہارنپورکی ہی بات کری تو اکھیلیش یادو اور مایاوتی نے یہا ں سے اپنی الیکشن مہم کی شروعات کی تھی‘ لیکن کانگریس امیدوار عمران مسعود یہاں کافی طاقتور ہیں۔سہارنپور کے لوگوں کا ماننا ہے کہ یوگی کے حملے سے عمران کو فائدہ ہوتا دیکھائی دے رہا ہے اور مسلم ووٹ ان کے حق میں ڈالے جاسکتے ہیں‘ اس سے سیدھے طور پر گٹھ بندھن کو نقصان ہوگا۔

رام پور/مراد آباد/سہارنپور۔بہوجن سماج پارٹی کی صدر مایاوتی کی جانب سے مسلم ووٹوں تقسیم ہونے سے بچنے کی اپیل نے مغربی اترپردیش کی سیاست میں ایک اہم سوال کھڑا کیاہے؟۔ سہارنپور سے رام پور اور مراد آبا د تک کے مسلم اکثریت والے لوک سبھا سیٹوں پر یہ سوال ہوا میں ہے کہ کیا ایس پی ‘ بی ایس پی اور کانگریس کے درمیان اتحاد نہ ہونے کی وجہہ سے مسلم ووٹوں کی تقسیم ہوجائے گی؟۔کیا اس کا فائدہ سیدھے طور پر بی جے پی کو مل سکتا ہے؟ ۔ مایاوتی کے اس بیان کی کوئی وجہہ بھی ہے‘ جس سے یہ واضح ہوکہ کانگری سنے ان کا اور اکھیلیش کا سردرد بھی بڑھایا ہے۔

مغربی یوپی کی مسلم اکثریت والی سیٹوں پر فوکس میں کانگریس ہے جس کو ایس پی‘ بی ایس پی نے گٹھ بندھن میں شامل نہیں کیا ۔ راہول گاندھی خود یوپی میں فرنٹ فوڈ پر کھیلنے کی بات کرچکے ہیں۔ سہارنپور کی ہی بات کرریں تو اکھیلیش یادو اور مایاوتی نے یہاں سے اپنے الیکشن مہم کی شروعات کی تھی‘ لیکن کانگریس امیدوار عمران مسعود یہاں سے طاقتور ہیں۔

وزیراعظم نریندر مودی کے خلاف متنازعہ بیان دینے کی وجہہ سے سرخیو ں میں ائے عمران کو 2014میں چار لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے تھے اور بی جے پی کے راگھو لکھن پال کے مقابلے انہیں محض 65ہزار ووٹو ں سے ہار کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

یہاں ایس پی بی ایس پی گٹھ بندھن نے حاجی فضل الرحمن کو اتارا ہے ‘ ایسے میںیہاں مسلم ووٹوں کو حاصل کرنے میں سخت جدوجہد کا سامنا ہے۔ چند دن قبل چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ نے عمران مسعو د کو جیش کے سربراہ مسعود اظہر کا داماد بتایاتھا۔

سہارنپور کے لوگوں کی باتوں کو تسلیم کیاجائے تو یوگی کے اس بیان کا مسعود کو ہی فائد ہوتا دیکھائی دے رہا ہے اور مسلم ووٹ ان کی حمایت میں جاسکتے ہیں ‘ اس سے سیدھے طور پر گٹھ بندھن کو نقصان ہوگا۔حالانکہ رام پور کی ہوا سہارنپور کے مقابلے الگ ہے۔

یہا ں سے کانگریس نے اعلی ذات سے تعلق رکھنے والے سابق رکن اسمبلی سنجیوکپور کو میدان میں اتارا ہے۔

انہیں مقامی لوگوں فرضی امیدوار قراردے رہے ہیں۔ صاف ہے کہ یہا ں سے کانگریس کا کوئی مضبوط مسلم چہرہ نہ ہونے کی وجہہ سے اعظم خان کو فائدہ ہوسکتا ہے۔

سماج وادی پارٹی سے دومرتبہ رکن پارلیمنٹ رہی جیہ پردا یہاں سے بی جے پی امیدوار بن کر میدان میں اتری ہیں۔ مقامی وکیل ظفر حسین کہتے ہیں’ اعظم خان ہی تھے جن کی وجہہ سے پہلے جیہ پردا نے جیت حاصل کی تھی‘ مسلمان انہیں ہے حمایت دیں گے‘۔

مغربی اترپردیش کی ایسی کئی سیٹیں ہیں جہاں کانگریس نے ایسے امیدوار اتارے ہیں جو عظیم اتحاد کے مسلم ووٹوں کو نقصان پہنچاسکتے ہیں۔خاص طور پر بی ایس پی امیدوار جہا ں سے میدان میں ہیں وہاں کانگریس سخت چیالنج پیش کررہی ہے ۔

مثال کے طور پر بجنور کی ہی بات کریں تو یہاں سے کانگریس نے بی ایس پی کے سابق لیڈر نسیم الدین صدیقی کو اتارا ہے جبکہ بی ایس پی نے گجر سماج کے مالک ناگار کو ٹکٹ دیاہے۔ مقامی صحافی انور کمال کہتے ہیں کہ ’’ دلت مسلم اتحاد کی وجہہ سے ہی گٹھ بندھن امیدواروں کی جیت ہوسکتی ہے۔

حالانکہ کانگریس کی جانب سے نسیم الدین کو اتارے جانے سے گٹھ بندھن امیدوار کے لئے حالات مشکل ہوگئے ہیں ۔ مراد آباد میں کانگریس نے شاعر عمران پرتاب گڑھی کو اتارا ہے‘ جبکہ عظیم اتحاد سے ایس پی کے ایس ٹی حسن ہیں۔پٹیل نگر کے کاروباری عابد خان کہتے ہیں ’ حسن ایک مضبوط امیدوار ہیں ۔

وہ سماجی کارکن رہے ہیں اور لوگوں کے صحت کے معاملات میں مدد کرچکے ہیں۔کانگریس نے یہاں سے اپنے ریاستی صدر راج ببر کو فتح پور سکری بھیجا ہے ‘ ایسے میں لوگوں کا کہنا ہے کہ عظیم اتحاد او رکانگریس کے درمیان یہاں ایک طرح سے سے فرینڈلی لڑائی کے حالات ہیں۔پہلی مرتبہ حبیب الرحمن کہتے ہیں’’ مغربی یوپی میں مسلم رائے دہندے اس پر نظر رکھیں گے کہ غیر مسلم ووٹ کس امیدوار کے حق میں جارہے ہیں۔

ایسے میں بہت سارے لوگ کانگریس کوبھلے ہی پسند کرتے ہوں ‘ لیکن عظیم اتحاد کے امیدوار کاموقف مضبوط ہوتو وہ اس کے حق میں جاسکتے ہیں‘۔ایسی بھی کئی سیٹیں ہیں جہاں کانگریس نے گٹھ بندھن کی حمایت کی ہے۔ ایسے سیٹوں پر گٹھ بندھن راست طور پر نہیں دیکھائی دے رہا ہے ‘ جیسے امرواہا میں بی ایس پی کے دانش علی کو میدان میں اتارا گیا ہے اور انہیں کانگریس کی حمایت حاصل ہے۔