ووٹ کٹوا پارٹی کے 7 مقررہ حلقوں کے اُمیدواروں کا اعلان، دیگر حلقوں کیلئے بھی فہرست کی تیاری
تلنگانہ کے مسلم اکثریتی علاقوں میں کانگریس کا موقف مضبوط
ٹی آر ایس کو فائدہ پہونچانے مسلم ووٹ منقسم کرنے کی سازش
فرقہ پرستوں کا ساتھ دینے والی ٹی آر ایس کو مجلس کی بھرپور حمایت
حیدرآباد۔ 13ستمبر (سیاست نیوز) تلنگانہ میں ریاستی اسمبلی کی تحلیل کے بعد انتخابی سرگرمیاں شروع ہوچکی ہیں اور قبل از وقت مجوزہ اس انتخابات میں سیاسی پارٹیوں کے انتخابی میدان میں اُتارے جانے والے امیدواروں کے ناموں کو قطعیت دینے کا آغاز بھی کردیا ہے جیسا کہ برسراقتدار ٹی آر ایس نے اپنے 105 امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا تو دوسری طرف مجلس اتحادالمسلمین نے بھی اپنے امیدواروں کے ناموں کو تقریباً قطعیت دیتے ہوئے اعلان کردیا۔ مجلس نے صرف 7 امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا ہے جن پر اس پارٹی کے امیدوار موجود تھے، تاہم ان 7 امیدواروں میں 2 کے مقامات کو تبدیل کیا گیا جو پارٹی کے داخلی معاملات میں بے چینی ظاہر ہوتی ہے لیکن ان 7 امیدواروں کے ناموں کے بعد اب مجلس دوسری فہرست کی تیاری میں مصروف ہے۔ اترپردیش اسمبلی کیلئے 38 ، مہاراشٹرا اسمبلی کیلئے 24 اور بہار اسمبلی کیلئے 6 امیدواروں کا اعلان کرنے والی مجلس نے آبائی ریاست میں فی الحال 7 امیدواروں کا اعلان کیا اور اس بات کے قوی امکانات پائے جارہے ہیں کہ عنقریب دوسری فہرست کا بھی اعلان ہوگا۔ مجلس کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ پارٹی نے انتخابی شیڈول سے قبل امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا۔ ریاستی عوام اب مجلس کی دوسری فہرست کی اطلاع پر بے چینی سے منتظر ہیں کہ آیا جماعت ریاست کے کن حلقوں سے امیدواروں کو انتخابی میدان میں اُتارے گی یا پھر شہر ہی تک محدود رہے گی۔ پارٹی نے شمالی ہند کی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں مقابلہ کیا تاہم اس مقابلے میں ایک پارٹی سے باہمی مفاہمت اور ایک پارٹی کے اشارے پر کام کرنے کے الزام سے مجلس بچی نہیں حالانکہ کانگریس پارٹی نے تو مجلس پر بی جے پی کے اشاروں پر کام کرنے کا الزام عائد کیا۔ شمالی ہند کی ریاستوں بہار، اترپردیش اور اس کے بعد مہاراشٹرا میں مجلس نے مقابلہ کیا اور کانگریس نے اس مقابلہ کو ’’مسلم ووٹوں کی تقسیم کیلئے مقابلہ‘‘ قرار دیا اور اب تلنگانہ ریاست میں بھی کانگریس اس طرح کے الزامات عائد کررہی ہے۔ ایک وقت کے قریبی دوست اور حلیف مجلس و کانگریس میں اَن بن کے بعد مجلس کی ٹی آر ایس سے قربت یہ کوئی عام نہیں رہی جبکہ مجلس کے صدر نے بھی کئی موقوں پر اس قربت کا اظہار کردیا۔ اس پس منظر میں مجلس کی دوسری فہرست کا عوام بے چینی سے انتظار کررہے ہیں چونکہ شہر حیدرآباد کے علاوہ ریاست تلنگانہ کے دیگر بڑے شہروں نظام آباد، بودھن،کریم نگر اور دیگر علاقوں میں مسلم اکثریتی رائے دہندے پائے جاتے ہیں اور ان علاقوں میں مسلم رائے دہندوں کو اپنی جانب راغب کرنے میں کانگریس بڑی حد تک کامیاب ہوچکی ہے۔ روایتی مسلم ووٹ بینک کے علاوہ ٹی آر ایس کی وعدہ خلافی بالخصوص 12% مسلم تحفظات کی عدم فراہمی سے ناراض مسلم رائے دہندے کانگریس میں اپنا بہترین متبادل تلاش کررہے ہیں اور ایسی صورت میں مقامی جماعت کی دیگر حلقوں میں دلچسپی کئی ایک وجوہات کے علاوہ شبہات کا سبب بنی ہوئی ہے جہاں تک مجلس کے اعلان کردہ اور سیٹنگ ایم ایل ایز کا معاملہ ہے ، اس مسئلہ پر جماعت پہلے ہی داخلی مسائل سے پریشان ہے، اضلاع کے علاوہ شہری رائے دہندوں کی بدلتی سوچ اور پارٹی کے داخلی مسائل پارٹی قیادت کیلئے پریشانی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ سمجھا جارہا ہے کہ ان حالات کے سبب پارٹی کو امیدواروں کے مقامات کو بدلنا پڑا اور پارٹی کے بااثر قائد کے علاقہ کو بھی تبدیل کردیا گیا جو شہر کے ایک حصہ میں کافی اثر رکھتے ہیں۔ حالیہ دونوں ایک ریالی کے سبب اس قائد کو پابند کردیا گیا اور ان کی سرگرمیوں کو شہر کے دوسرے حصہ میں مستقبل کردیا گیا۔ اس کے علاوہ مجلس پارٹی کارکنوں اور ابتدائی صدور میں پائی جانے والے اندرونی اختلافات سے بھی کافی پریشان ہے۔