مائنمار میں مسجد کی تباہی ، مسلمانوں پر مظالم

مسلم مدرسہ کی تعمیر پر بدھسٹ قوم پرستوں کے ہجوم کا حملہ  ۔ مسلمانوں میں خوف کا ماحول
یانگون ۔ 25 جون (سیاست ڈاٹ کام) مائنمار میں حکام نے کہا ہے کہ بودھ مت کے پیرؤں کے ایک ہجوم نے مسلمانوں کی ایک مسجد کو تباہ کردیا جس کے بعد پیدا شدہ کشیدگی کے پیش نظر پولیس کی بھاری جمعیت تعینات کردی گئی ہے۔ مائنمار میں مسلمانوں کے خلاف سلسلہ وار تشدد میں آج کا واقعہ ایک نیا اضافہ ہے۔ اس غریب ملک میں 2012ء سے مذہبی حملوں اور خون خرابہ کے واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ بودھ قوم پرستی میں اضافہ آنگ سان سوچی کی نئی حکومت کیلئے سنگین چیلنج بن گیا ہے۔ صوبہ باگو کے ایک گاؤں میں مسلم دشمن تشدد کا تازہ ترین واقعہ پیش آیا جب 200 سے زائد بودھ پیروؤں کے ایک ہجوم نے مسلم علاقہ کا محاصرہ کرلیا جہاں ایک مسلم مدرسہ کی تعمیر کے مسئلہ پر پڑوسیوں کے درمیان بحث و تکرار ہوگئی تھی۔ مقامی پولیس سربراہ ارون لیون نے کہا کہ مقامی صورتحال ہفتہ کو بھی کشیدہ رہی اور برقراری امن کیلئے 100 افسران پولیس تعینات کئے گئے ہیں۔ پولیس سربراہ نے کہا کہ گزشتہ رات مزید تشدد بھڑک اٹھنے کے اندیشوں کے تحت پولیس کا سخت پہرہ رکھا گیا تھا۔ اب اس تعداد میں مزید اضافہ کیا گیا ہے۔

تاہم مسجد کے انہدام اور تباہی کے ضمن میں ہنوز کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ مسجد کے معتمد وین شوی نے کہا کہ مقامی مسلمان اپنے تحفظ و سلامتی کے بارے میں فکرمند ہیں اور کشیدگی میں کمی تک کسی دوسرے مقام کو منتقل ہوجانا چاہتے ہیں۔ مسجد کے معتمد نے مزید کہا کہ ’’یہاں ہماری حالت محفوظ نہیں ہے اور ہم اپنا گاؤں چھوڑنے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔ ہم ہنوز پریشان و خوف زدہ ہیں‘‘۔ واضح رہے کہ وسطی مائنمار اور مغربی ریاست رکھائین میں مسلمانوں کے خلاف بودھ مت کے پیروؤں کی نفرت انگیز مہم جاری ہے۔ تشدد کے نتیجہ میں تاحال سینکڑوں افراد ہلاک اور دیگر ہزاروں بے گھر ہوچکے ہیں۔ سخت گیر بودھ راہبوں اور بودھ قوم پرستوں نے ’’روہنگیا‘‘ مسلمانوں کو سرکاری طور پر اقلیت کی حیثیت سے تسلیم کئے جانے کی سخت مخالفت کرتے ہوئے روہنگیا مسلمانوں کو ’پناہ گزیں‘ قرار دیا ہے۔