دیوبند: پوری دنیا میں سیکولر سمجھے جانے والے آرٹ آف لیونگ کے بانی شری شری روی شنکرنے بابری مسجد تنازع کو عدالت سے باہر حل نہ کئے جانے پر دھمکی دی ہے ۔جس پر سیکولر ذہنیت رکھنے والے ہندو مذہبی رہنما نے شری شری روی شنکر کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے ۔
او رکہا کہ ایک صاف ستھری شبیہ والی شخصیت نے قتل و غارت گری کی دے کر اپنی شبیہ داغدار کرلی ہے۔دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث مولانا سید احمد خضر شاہ نے شری شری شنکر کی جانب سے بابری مسجد کیس کو عدالت سے باہر نہ سلجھا نے پردئے گئے دھمکی آمیز بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ شری شری روی شنکر وہ چہرہ ہے جس کے نام کے ساتھ ہی ایک سیکولر ذہن مذہبی او ر انصاف پسندشبیہ سامنے آجاتی ہے ۔
لیکن اس حساس مسئلہ پر انہوں نے انکے منشا کے خلاف جانے پر جس طرح قتل و غارت گری کی دھمکی دی ہے وہ نہایت ہی شرمناک ہے۔جس کی عالمی سطح پر مذمت ہونی چاہئے۔مولانا سید احمد نے کہا کہ شری روی شنکر بابری مسجد تنازع کو سلجھانے کی تقریبا ایک درجن کوششیں کئے ہیں جو سب نا کام ہوئیں ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ مسلم رہنما یا مسلم پرسنل لاء بورڈ ہی نہیں بلکہ ہندو تنظیمیں شری رام جنم بھومی ٹرسٹ کے منتظمین نے تنازع میں شری روی شنکر کے دخل اندازی کو سخت نا پسند کیا ہے۔او ران کے ایودھیا میں داخل ہونے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔ہندو تنظیمو ں کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ شری روی شنکر کا بابری مسجد اور ام جنم بھومی مسئلہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
مولانا سید احمد خضر شاہ نے کہا کہ آج تک شری روی شنکر کو کسی مسلم یا ہندو تنظیم نے قبول نہیں کیاہے او رنہ ہی ان کے مشوروں کو قبول کیا ۔مولانا احمد نے مزید کہا کہ روی شنکر کسی مذہب یا دیوی دیوتا کو نہیں مانتے ایسی صورت میں ان کے اندر شری رام یا ان کے پیروکاروں کے لئے کونسا جذبہ جاگ اٹھا ۔
مولانا احمد نے کہاکہ جنگ زدہ ملک شام کا حوالہ دے کر ہندوستان میں جس قتل و غارت گیری کی دھمکی دے رہے ہیں وہ ان کے ورلڈ پیس پروگرام کے بالکل بر عکس ہے۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان کے تمام مسلمانو ں کا اس ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ پر بھروسہ ہے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ نے کئی مرتبہ یہ اعلان کر چکا ہے کہ وہ عدالت کے فیصلہ کا احترام کریں گے۔مولانا سید احمد نے کہا کہ شری روی شنکر پرسخت رد عمل کا اظہا ر کرتے ہوئے کہاکہ کل تک روی شنکر بلا تفریق مذہب و ملت ہر فرد کے لئے قابل احترام سمجھے جاتے تھے لیکن ان کے ا س نئے انداز نے انہیں ہندوستان کے دوسرے باباؤوں کی قطار میں لا کھڑا کر دیا ہے۔