فسطائیت کا گھناؤنا روپ۔ 

ب سے ملک میں سکیولر ھاقتیں کمزور ہوئی ہیں ‘ فسطائیت نئے نئے روپ بھر کر سامنے آرہی ہے۔ جناح شگوفہ چھوڑ کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہنگامہ برپا کرنا فسطائیت کا نیا گھناؤنا روپ ہے۔ ہندوستان باہمی روداری اور منفرد گنگاجمنی تہذیب سے تشیل کروہ ایک صحت مند معاشرے کا ملک ہے۔

جب تک سکیولر طاقتیں مضبوط رہیں فسطائیت کھل کر اپنا گھناؤنا کھیل نہیں کھیل سکی ‘لیکن جب ملک میں اپنی نادانی اور آپسی پھوٹ کی شکار سکیولرطاقتیں کمزور ہوئیں تو فسطائیت نے نئے نئے شگوفہ چھوڑ کر اپنا گھنانونا روپ دکھانا شروع کردیا۔ ایک مخصوص ذہنیت کے لوگوں کے ہاتھوں میں اقتدار کیا آیا کہ صدیوں پرانے میل جول او رباہمی شیر وشکر رہنے والے قوموں کے درمیان میں نفرت او رحسد وبغض کے بیچ بودئے گئے۔

پرامن ماحول کو عدم رواداری کے تیر ونشتر نے چاک چاک کردیا۔ کبھی ’لوجہاد‘ تو کبھی ’گھر واپسی‘ اور بھارت ماتا کی جئے تو کبھی وندے ماترم پر لایعنی بحث نے ہندوستان کے باشعور لوگوں کو تشویش میں مبتلا کردیا۔ اب فسطائیت جناح کا شگوفہ لے کر سامنے ائی ہے۔

ہندوستان ہی نہیں بلکہ بیرون ملک جن ہندوستانی سپوتوں نے ملک کے نام روشن کیاہے ان میں سے بہت سے لوگ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دریائے علم سے فیضیاب ہوکر درخشاں مستقبل حاصل کرسکے ہیں۔

یہ وہ یونیورسٹی ہے جس کے بانی سرسید احمد حان نے پیروں میں گھنگھروباندھ کر تمسخر کرنے والے لوگوں کے سامنے ان کی خواہش پر رقص کرکے اس ممتاز یونیورسٹی کے قیام کے لئے چندہ حاصل کیاتھا۔ گذشتہ برس ہی تعلیم کے معاملے میں اس یونیورسٹی کو ہندوستان بھر میں پہلا مقام حاصل ہوا ہے ۔

مسلمانوں کے ساتھ ساتھ غیرمسلموں کے بچے بھی اس یونیورسٹی کی آغوش میں پرورش پاکر ہندوستان کی باہمی رواداری کا درس عملی طور پر سیکھتے ہیں اور جب یہا ں سے فارغ ہوتے ہیں تو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا طالب علم ودیگر یونیورسٹیوں کے طالب علم سے منفرد اخلاق اور قدروں والا انسان نظر آتا ہے۔

یہ یونیورسٹی جو بہت کم فیس میں اعلی معیاری تعلیم سے اپنے طلبا کو مزین کرتی ہے اس یونیورسٹی پر فسطائیت کی ترچھی نظریں عرصہ سے لگی ہوئی ہیں۔ محمد علی جناح کی تصوئیرعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے یونین حال میں آزادی سے پہلے جناح کے یونین کے رکن بننے پر لگائی گئی تھی۔

جولگ بھی یونین کے تاحیات رکن بننے کا اعزازحاصل کرتے ہیں‘ ان کی تصوئیریونین کے دفتر پر اویزاں ہوتی ہے ۔

اس تصوئیر کے آویزا ں ہونے سے نہ تو مسلم یونیورسٹی کے طلبا محمد علی جناح کے نظریات نے فروغ پایا او رنہ ہی کبھی جناح کی کسی طور پر مدح سرائی کی گئی۔ جبکہ جناح کے سکیولرخیالات سے متاثرہوکر بی جے پی کے سابق صدر لال کرشنا اڈوانی نے پاکستان میں ان کے مزار پر جاکر پیشانی جھکائی تھی۔ اسی طرح بی جے پی کے ساب مرکزی وزیرجسونت سنگھ نے جناح کی شخصیت پر پوری ایک کتاب لکھ دی تھی۔

حال ہی میں اترپردیش کے وزیراعلی یوگی ادتیہ ناتھ کے کابینی وزیر سوامی پرساد موریہ نے جناح کو مہاپرش قراردیا۔ تاریخی حقائق کو جھٹلا یانہیں جاسکتا۔ محمدعلی جناح ہندوستان کی تحریک آزادی میں باقابل فراموش کردار ادا کرنے والی کانگریس کے صدر ہ چکے ہیں ۔

انہو ں نے کانگریس کے کئی اجلاس کی صدرات کی ہے۔ پارلیمنٹ ہاوز میں دیگر لیڈران کے درمیان ان کی تصوئیر اویزاں ہے۔ افسوس کی ہوتا ہے کہ اپنے چند مفادات کو حاصل کرنے کے لئے فسطائیت کیسا گھناؤنا روپ اختیار کرلیتی ہے۔

کیرانہ کا ضمنی الیکشن قریب ہے ‘ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ ووٹوں کو پولرائز کرنے کے لئے جناح کا شگوفہ چھوڑا گیاہے۔ کوئی بھی جیت اگر نفرت کی بنیاد پر سازش رچ کرحاصل کی جائے تواسے جیت نہیں بلکہ مکاری اور عیاری سے تعبیر ہی کیاجائے گا۔

بہتر ہی ہے کہ اپنے بازؤں کے دم پر الیکشن لڑا جائے۔ سماج میں نفرت گھول کر سیاسی عروج حاصل کرنا انسان نہیں شیطان کا کام ہے۔ فسطائیت کی اس طرح کی گھناؤنی حرکتوں پر مرکزی او رریاستی حکومتوں کو یکشن لیتے ہوئے شر پسندوں پر قدغن لگانا چاہئے۔

ورنہ معاشرہ باورد کے ڈھیر کی طرح سلگتا رہے گا او رکسی دن اتنا بڑا دھماکہ ہوسکتا ہے کہ ہندوستان کی عظمت او ر روادری کا جنازہ نکل جائے