ہم نے انگریزوں سے آزادی سے تو حاصل کرلی او رجمہوریت کا راستہ بھی اپنا لیا ‘لیکن ابھی تک بہت سے گھروں میں جمہوریت کی خوشبو نہیں پہنچی ہے۔
آج ہم سب کئی ہفتوں کے بعد مخاطب ہیں۔ آج ہمارا ملک اپنی جمہوریت کا جشن منارہا ہے کوئی بھی ملک جو کئی برسوں کی غلامی سے آزادہوتا ہے ۔ اس کے لئے سبھی محاذ پر ترقی حاصل کرنا ایک بڑا چیلنج ہوتا ہے۔ ہندوستان نے انگریزوں تو آزادی حال کرلی او رجمہوریت کا راستہ بھی اپنا لیا لیکن ابھی تک بہت سے گھروں میں جمہوریت کی خوشبو نہیں پہنچی ہے۔
کیاہم جمہوریت 69ویں دن کے موقع پر اس پر غور کریں گے کہ جس شان سے جمہوریت کی پریڈ راج پتھ سے گزرتی ہے ‘ ویسی ہی شان ملک کے کروڑوں لوگوں کو کیوں نہیں مل پائی ہے؟۔کیو ں ہم آج بھی جمہوریت کے باوجود خانوں میں تقسیم ہیں؟ کیوں ذات پات مذہب اور زبان کے جھگڑوں سے آج تن نہیں نمٹ سکے ہیں؟جب ہم آس پاس نظر دوڑاتے ہیں تو یہ لگتا ہے کہ ہمارے ملک نے ترقی کے سبھی زینے جیسے چڑھ لئے ہوں۔
اگر ہم ترقی کے نام پر ترقی تلاش کرتے ہیں تو ایسالگتا ہے کہ ہم نے ترقی حاصل کرلی ہے۔ لیکن اگر آپ کو حالیہ رپورٹ پر نظر ڈالیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ بہترترقی صرف چند لوگوں کے گھرو ں پر دستک دے رہی ہے جبکہ بے شمار بت سے مکانات ایسے ہیں جنھیں ترقی کی ہوا بھی نہیں چھوپائی ہے۔ آکس فام کی رپورٹ میں ہمیں بتاتی ہے کہ ہمارے ملک میں بابرابری کا شکار ہے۔ ہم سے کہاں غلطی ہورہی ہے ؟ کچھ ہی لوگوں تک اگر ترقی کا پھل پہنچ رہا ہے تو اسے ترقی نہیں بلکہ خود غرضی کہاجائے گا۔ کسی بھی معاشرے میں اس قسم کا فروغ سماج کے لئے نقصاندہ ہوتا ہے اس کاانجام کبھی بہتر نہیں ہوتا ہے۔
آکس فیم انڈیانے اپنے سروے میں اس فکر کو راہ دیکھائی ہے کہ حکومت ہند کو یہ دیکھنا ہوگا کہ ہندوستان کی معیشت صرف کچھ لوگوں کے لئے اچھی ثابت نہ ہو بلکہ سب کے لئے اس کا اچھا ہونا ظاہر بھی ہو او ران کا حاصل بھی ہو۔ایک بات تو یہ واضح ہے کہ ہندوستان کی معیشت اچھی ہے لیکن یہ بہتر معیشت یا اچھے دن صرف چند لوگوں کے لئے ہی ہیں۔ اس رپورٹ میں کئی حیران کن اعداد وشمار ہیں جو ہندوستان کے کئے ایک سبق بھی ہیں! اس رپورٹ نے بہت سے مسائل پر روشنی ڈالی ہے ۔ جو اقتصادی سطح پر ہندوستان کی حیثیت سے بہت خوفناک چہرہ دکھاتا ہے ۔
ریوارڈ ورک نوٹ ویلتھ کے نام سے جاری رپورٹ میںآکس فیم نے یہ ظاہر کیاہے کہ عالمی معیشت نے جس طرح بڑے مالداروں کو بے حساب دولت فراہم کی ‘ جبکہ لاکھوں کروڑ وں لوگ خط افلاس سے نیچے ہونے کی وجہہ سے سرکاری اسکیموں کے سہارے زندہ رہنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ ایک جائزے میں کہاگیاہے کہ کم از کم مزدوری پانے والے دہی باشندوں کویا کسی مزدور کو ملک کی کسی کپڑاکمپنی کے ایک بڑے ایکزیکیٹو کے ایک سال کی آمدنی کے برابر کمائی کرنے میں941سال لگ جائیں گے۔ اسی طرح امریکہ میں ایک معمولی مزدور سال بھی میں جتنا کماتا ہے اتنا ایک سی ای او ایک دن میں ہی کمالیتا ہے۔ اس سروے میں ملک کے دس ممالک کے ستر ہزار لوگوں سے سوالات کیے گئے تھے ۔
اس رپورٹ میںیہ سامنے آیا ہے کہ ہندوستا ن کی ایک فیصد امیرآبادی میں2017میں مال ودلت کے 73فیصد حصہ قبضے میں لیاہے ۔ اس سروے کے مطابق 67کروڑ ہندوستانیوں کی جائیدادمیں محض ایک فیصدکا اضافہ ہوا ہے۔ ورلڈاکنامک فورم کی سوئزر لینڈ کے ریسورٹ داؤس میں سالانہ کانفرنس کے آغاز سے چند ہی گھنٹے پہلے بین الاقوامی انسانی حقوق گروپ اکسفیم کی جانب سے جاری سروے رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ اعداد ووشمار سب سے غریب ہندوستانیو ں کے ہیں جو ملک کی آدھی آبادی پر مشتمل ہیں۔ عالمی سطح پر صورت حال او ربھی خراب ہے ۔
سروے کے مطابق گذشتہ سال دنیاکی مال ودولت میں جو اضافہ ہوا ہے اس کا 82فیصدحصہ محض ایک فیصد آمیرآبادی کے ہاتھ لگ گیا ۔ گذشتہ سال کے سروے میں پتہ چلا کہ ہندوستان کی سب سے زیادہ مالدار ایک فیصد آبادی کے پاس ملک کی 58فیصد دولت ہے۔ یہ عالمی سطح پر پچاس فیصد کے اعداد وشمار سے زیادہ ہے ۔
سال کے سروے سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ 2017میں ملک کی سب سے مالدار ایک فیصد آباد ی کی دولت میں20.9فیصد کا اضافہ ہوا ہے ۔ یہ رقم مالی سال 2017-18۔کے لئے حکومت ہند کے بجٹ کی رقم کے برابر ہے۔آج جب ہم جمہوریت کے 69ویں یوم منارہے تو ہمیں یہ دل سے ارادہ کرنا ہوگا کہ ہم ملک میں سبھی شہریوں تک جمہوریت کا سلسلہ اس انداز سے پہنچائیں گے سب کو برابر ایک جیسی زندگی مل سکے۔ تبھی ہم اپنی جمہوریت پر فخر کرنے کے لائق ہوپائیں گے۔