تحقیقات میں یہ بات سامنے ائی ہے کہ سال2018میں غزہ ریالیوں کے دوران بچوں اور شہریوں پر جان بوجھ کر نشانہ بازوں کا گولی برسانا’’ مناسب طور سے قابل یقین ‘‘ ہے
نیویارک۔ غزہ میں2018کے احتجاج کے دوران ردعمل کے طور پر اسرائیل فوج کے ہاتھوں انسانیت کے خلاف بربریت کے کچھ تجاویز سامنے ائے ہیں‘ کیونکہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق نشانہ بازوں نے صاف طور پر دیکھائی دینے والے بچوں ‘ ہلت ورکرس اور صحافیوں کو نشانہ بنایا ہے۔
زیر قبضہ فلسطینی علاقے میں احتجاج کے متعلق اقوام متحدہ کے خود مختار تحقیقاتی کمیشن کے چیر من سانٹیاگو کانٹون نے اپنے ایک بیان میں کہاکہ’’ اسرائیلی سپاہیو ں نے بین الاقوامی انسانی حقوق اور انسانیت قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔
ان میں سے کچھ واقعات جنگی جرائیم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے قانون کی خلاف ورزی ہیں‘‘۔
مذکورہ تحقیقات اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کونسل کی جانب سے تشکیل دی گئی تھی‘ جس نے 30مارچ2018سے 31ڈسمبر تک احتجاج کے دوران پیش ائے امکانی خلاف ورزیوں کی جانچ کی ہے۔اس میں کہاگیا ہے کہ ’’ چھ ہزار سے زائد غیر مصلح احتجاجیوں پر ملٹری کے نشان بازوں نے گولیاں چلائی۔
اور یہ کاروائی ہفتہ درہفتہ احتجاجیوں پر چلتی رہی۔ کمیشن کے سامنے یہ بات ائی ہے کہ اسرائیل کے نشان بازوں نے صحافیوں‘ ہلت ورکرس‘ بچوں او رمعذور لوگوں پر گولیاں چلائیں‘ جس کو وہ صاف طور پر پہچان چکے تھے‘‘۔
تحقیقات کرنے والے خاص طور سے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ وہ قابل یقین سطح پر یہ بات کہی جارہی ہے کہ اسرائیل فوج نے فلسطینیو ں کو نہ صرف قتل کیابلکہ انہیں زخمی بھی کیاہے۔
اقوام متحدہ کی ٹیم نے اسرائیل کے ان دعوؤں کو مسترد کردیا جس میں کہاگیاتھا کہ احتجاجیوں کی منشاء دہشت گردانہ کاروائی انجام دینے کی تھی۔کمیشن نے 325متاثرین کے ساتھ عین شاہدین او ردیگرذرائع کے انٹرویو لئے وہیں 8ہزار صفحات پر مشتمل دستاویزات بھی اکٹھا کئے ہیں