علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کشیدگی کے اسباب ۔ ویڈیو

حیدرآباد۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں جاری کشیدگی کو جس انداز میں پیش کیاجارہا ہے وہ سچائی سے دور ہے ۔ اس بات کا دعوی اس ویڈیو میں طلبہ تنظیم سے وابستہ لیڈر کررہے ہیں۔کہاجارہاتھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصوئیر کو لے کر کشیدگی پیدا ہوئی ہے۔

بی جے پی کے متعلقہ رکن اسمبلی ستیش گوتم نے دعوی کیا ہے کہ انہیں یونیورسٹی کے یونین حال میں جناح کی لٹکی تصوئیر کے متعلق جانکاری ملنے کے بعد انہوں نے یونیورسٹی انتظامیہ کو مکتوب لکھ کر وضاحت طلب کی ۔

مگر حقیقت کچھ اور ہے ۔ کیونکہ ستیش گوتم کو یونیورسٹی کی جانب سے جواب دئے جانے کے بعد بھی وہاں پر کشیدگی پیدا ہوئی۔ دراصل کشیدگی جس روز ہوئی اس روز سابق نائب صدر جمہوریہ ہند جناب حامد انصاری تشریف لانے والے تھے ۔ اور اسی روز ہندو واہانی کے لوگوں نے جناح کی تصوئیر کو بنیاد بناکر یونیورسٹی پر حملہ کردیا۔

پیش کئے جانے والے ویڈیو میں اس بات کا دعوی کیاجارہا ہے کہ ہندویواوااہانی کے لوگوں نے یونیورسٹی طلبہ پر حملہ کیا اور انتہا تو یہ ہوگئی ہے کہ جناب حامد انصاری کی موجودگی میں یہ حملے انجام دئے گئے ۔

پولیس نے سخت حفاظتی انتظامات کے دوران جناب حامد انصاری کو یونیورسٹی کیمپس لے کر اور وہا ں سے لے کر گئی مگر پولیس نے ہندویوا واہانی کے شر پسندوں کو روکنے کی کوشش نہیں کی اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پولیس نے طلبہ پر حملہ کیا۔ طلبہ کا ماننا ہے کہ پولیس نے ان پر لاٹھی چارج نہیں کیابلکہ جان لیوا حملہ کیا ہے کیونکہ پولیس کی لاٹھی چارج کے سبب طلبہ کے سر زخمی ہوئے ہیں اور کئی طلبہ اس لاٹھی چارج میں لہولہان بھی ہوگئے۔

بتایاجارہا ہے کہ جناح کی تصوئیر مسئلہ نہیں ہے ۔دراصل بھگوا تنظیم کے نشانے پر سابق نائب صدر جمہوریہ تھے جنھوں نے اپنی معیاد کی تکمیل کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے ملک بھر میں اقلیتوں پر ڈھائے جارہے مظالم پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مرکزی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایاتھا۔سمجھا جارہا ہے کہ جناب حامد انصاری کی آمد سے نالاں بھگوا تنظیمو ں نے جناح کی تصوئیر کو مسئلہ بناکر اے ایم یو میں کشیدگی پیدا کی ۔

کیونکہ واقعہ سے قبل بی جے پی کے متنازع لیڈر وراجیہ سبھا رکن سبرامنیم سوامی نے دو ٹوئٹ کئے تھے جس میں انہو ں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کودہشت گردوں کا مرکز قراردیتے ہوئے کہاکہ تھا کہ کوئی تو ہوگا جو اے ایم یو میں مخالف ملک سرگرمیوں پر روک لگانے کی پہل کرے اور اس کے بعد ہی یہ تنازع شروع ہوگیا۔

یونیورسٹی طلبہ کا ماننا ہے کہ جناح تو بہانا ہے ‘ حامد انصاری کو نشانہ بنانا ہے۔ واضح رہے کہ اے ایم یو میں آر ایس ایس کی شاکھا قائم کرنے کی ایک درخواست بھی پیش کی گئی ہے ۔ پچھلے چار سالوں میں بھگوا تنظیموں نے منظم طریقے سے ملک کے باوقار تعلیمی اداروں کو اپنا نشانہ بنایا ہے۔

حیدرآباد سنٹرل یونیورسٹی‘ جواہرلال نہرو یونیورسٹی‘ دہلی یونیورسٹی‘ بنارس ہندو یونیورسٹی کے بعد اب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ان کے نشانہ پر ہے ۔