سپریم کورٹ میں حکومت کو بتانا ہوگا‘ سولہہ سال بعد زمین لوٹانے کی بات کیو ںیاد ائی۔
نئی دہلی۔ایودھیا معاملے میں مرکزی حکومت کے زیر تحویل 67ایکڑ اراضی کو لے کر سپریم کورٹ نے 2003میں فیصلہ سنایاتھا کہ جب تک اس تنازعہ کا حل نہیں نکل جاتا ‘ غیر متنازعہ اراضی اس کے مالکوں کو نہیں لوٹائی جاسکتی۔یعنی وہاں پر جوں کا توں موقف بنا رہے گا۔
وہیں جمعرات کے روز مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں ایک درخواست دائر کی جس میں گذارش کہ زیر تحویل 67ایکڑ اراضی میں غیر متنازعہ اراضی اس کے مالکین کو لوٹانے کی اجازت دیدی جائے۔
مرکزی حکومت کی درخواست کے بابت قانونی ماہرین کا ماننا ہے کہ سپریم کورٹ نے 2003میں جو فیصلہ دیاتھاتب سے اب تک حالات میں کوئی تبدیلی نہیں ائی ہے او ردوسری بات یہ ہے کہ اب بھی متنازعہ اراضی کا معاملہ زیر التوا ء ہے۔ ایسے میں 2003میں کا فیصلہ اب بھی متاثر ہورہا ہے۔
ایسی میں مرکزی حکومت کے لئے سپریم کورٹ کو مطمئن کرنا ایک بڑی چیالنج ہے کہ آخر حالات میں کیا بدلاؤ ائے ہیں جس کی وجہہ سے عرضی داخل کی گئی ہے۔
سپریم کورٹ با ر اسوسیشن کے صدر وکاس سنگھ نے کہاکہ مرکزی حکومت نے زمین کو 1993میں اپنی تحویل میں لیاتھا او رمالکانہ حق حکومت کے پاس ہی ہے۔
سپریم کورٹ نے 2003میں متنازعہ اراضی پرحالات معمول پر لانے کے لئے کہاتھا اور اگر مرکزی حکومت زمین کو اس کے مالکین کو لوٹانا چاہتی ہے تو اس کی بنیاد پر سپریم کورٹ ائی ہے۔
لیکن سپریم کورٹ نے 2003میں جو فیصلہ دیاتھا اس میں کہاتھا کہ متنازعہ زمین کے علاوہ جو باقی زمین مرکزی حکومت کے پاس ہی رہے گی او رفیصلے کے بعد اس کا معاملہ طئے ہوگا۔پوری زمین تحویل میں لینے کاکام کیاگیاتھا ‘ جس میں متنازعہ اور غیر متنازعہ دونوں اراضیات ایک ساتھ جڑے ہیں۔
اس موقع پر دونو ں کو الگ الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا ہے۔وہیں مسلم فریقین کے وکیل انوپ جے چودھری نے کہاکہ 2003کا فیصلہ اسلم بھورا کے کیس میں ہوا تھا۔ سولہہ سال بعد مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں اس فیصلے کو بدلنے کی گوہا ر لگائی ہے۔
درخواست میں بدلاؤ کی درخواست اور ہدایت کی مانگ ہے۔تکنیکی طور پر یہ درخواست ٹک نہیں سکتی؟۔سولہ سال پرانے کیس کو حکومت کس طرح حق بجانب قراردے دی؟۔
سپریم کورٹ نے جو فیصلہ دیاتھااس کے حالات میں کوئی بدلاؤنہیں آیا ہے۔ ایسے میں پانچ ججوں کے فیصلے کو آسانی کے ساتھ نہیں بدلا جاسکتا۔معاملے میں کس کو نوٹس جاری ہوگی۔
سال2003میں ہی ریویو کیو ں نہیں داخل کیاگیاتھا؟۔وہیں رام للا ویراجمان کی جانب سے پیش وکیل کا کہنا ہے کہ1994میں اسماعیل فاروقی فیصلے آیاتھا اور پچھلے سال مسلمان فریقین نے سپریم کورٹ میں اس معاملے کواٹھایاتھا کہ اس فیصلے پر دوبارہ سنوائی کی جائے ۔
ایسے میں سولہ سال بعد بھی اگرمرکز درخواست کی ہے توبھی کوئی تکنیکی اڑچن نہیں ائے گی۔زمین تنازعہ سے جڑا جو معاملہ اب بھی زیر التوا ء ہے اس میں مرکزی حکومت فریق نہیں ہے۔ اسی وجہہ سے حکومت نے اس معاملے میں اسلم بھورا سے منسلک کیس میں درخواست دائر کی ہے۔
مرکزی حکومت اراضی کی نگران کار ہے ‘ اگر وہ زمین اس کے مالکین کو دینا چاہتی ہے تو عدالت سے اس کی اجازت لینا ہی ہوگا۔