مذکورہ کانگریس میں واپسی کی کوشش کررہی ہے‘ جس شہر میں اس نے 2013تک 15سالوں تک حکومت کی ہے‘ وہ اب اس کمیونٹی تک رسائی کی کوشش میں لگی ہے۔
مگر کانگریس کی بڑی پریشانی یہ ہے کہ وہ ووٹوں کی تقسیم کے خدشات سے دوچار ہے
نئی دہلی۔لوک سبھا الیکشن کے لئے دہلی میں اتحاد پر بات چیت میں ناکامی کے بعد مذکورہ عام آدمی پارٹی (اے اے پی) اور کانگریس مسلم کمیونٹی کی حمایت حاصل کرنے میں مصروف ہے جس کا دہلی کی سات پارلیمانی سیٹوں میں تین پرفیصلہ کن موقف ہے۔
جانکاروں کا کہنا ہے کہ اس خیمہ میں تقسیم بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے لئے فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے۔
مسلم اکثریتی علاقے میں انتخابی مہم کے دوران یہ دونوں پارٹیاں لوگوں سے ”ہوش مندی“ کامظاہرہ کرنے پر زور دے رہی ہیں۔
چاندنی چوک‘ نارتھ ایسٹ دہلی اور ایسٹ دہلی پارلیمانی حلقہ میں مسلمانوں کی آبادی قابل قدر ہے۔
مذکورہ کانگریس میں واپسی کی کوشش کررہی ہے‘ جس شہر میں اس نے 2013تک 15سالوں تک حکومت کی ہے‘ وہ اب اس کمیونٹی تک رسائی کی کوشش میں لگی ہے۔
مگر کانگریس کی بڑی پریشانی یہ ہے کہ وہ ووٹوں کی تقسیم کے خدشات سے دوچار ہے۔سیاسی جانکار سنجے کمار ڈائرکٹر سنٹر فار دی اسٹڈی آف ڈیولپمنٹ سوسائٹیز نے کہاکہ ”یہاں پر غیر بی جے پی ووٹوں میں تقسیم کاامکان ہے۔
امکان ہے کہ کانگریس کو مسلمانوں کی حمایت حاصل ہوگی کیونکہ وہ ایک قومی جماعت ہے اور لوگ اس کو بی جے پی کے متبادل کے طور پر دیکھتے ہیں۔
مگر یہ دونوں (اے اے پی اور کانگریس) ایک ساتھ آتے تو حالات یکسر تبدیل شدہ ہوتے“
۔تین وقت کے رکن اسمبلی اور ایسٹ دہلی سے کانگریس کے امیدوار ارویندر سنگھ لولی نے کہاکہ ”کانگریس وہ پارٹی ہے جس نے غیر بی جے پی اتحاد کی حکومت دی گی۔
ہم لوگوں سے کہہ رہے ہیں وہ اے اے پی کی حمایت میں اپنا ووٹ ضائع نہ کریں۔ آخر میں وہ بھی اتحاد کی حمایت کریں گے‘ جس کی صدارت کانگریس کے ہاتھ میں ہوگی“۔
انہوں نے پہلے ہی مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں جیسے ان کے پارلیمانی حلقے کا حصہ میں شامل ا وکھلا‘ ترلوک پوری‘ نظام الدین میں اجلاس منعقد کئے ہیں۔
اے اے پی کے نارتھ ایسٹ دہلی امیدوار دلیپ پانڈے نے کہاکہ ”پچھلے چار سالوں میں جو کام اے اے پی حکومت نے کیاہے اس کا کوئی تقابل نہیں ہے۔کانگریس نے حلقہ کو نظر انداز کیا۔
ہم نے پانی اور ڈرنیج کی لائن بچھائیں‘ اسکول انفرسٹچکر کو ترقی اور بہتر طبی سہولتیں عوام کو فراہم کی ہیں کا لوگوں کو اندازہ ہے“۔
نارتھ ایسٹ دہلی حلقے میں 23فیصد مسلمان ہیں جو تمام سات حلقوں میں سب سے زیادہ آبادی مانے جاتے ہیں جو مصطفےٰ آباد‘ سلیم پور‘ گونڈا پر مشتمل ہیں۔
چاندنی چوک حلقہ کے بلی مارن‘ ماتیا محل اور چاندنی چوک اسمبلی حلقوں میں مسلمانوں کی آبادی قابل قدر ہے۔
سال2015میں اقلیتوں جو سلم اور غیر منظم کالونیوں کے رہائشی تھے کو کانگریس کاحامی مانا جاتا تھا‘ جنھوں نے اے اے پی کو بڑے پیمانے پر ووٹ دئے‘ اور پارٹی کو 70میں 67سیٹوں پر جیت حاصل کرنے میں مدد کی۔
مگر2017کے میونسپل الیکشن میں کانگریس نے اے اے پی سے کچھ حصوں کو چھین لیا۔
ایسٹ دہلی میونسپل کارپوریشن میں کانگریس کا ووٹ شیئر(22.8%)رہا جبکہ اے اے پی (23.4%)رہاجومحض(0.6%)نہایت کم تھا۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مسلم کمیونٹی کے ووٹ کسی ایک پارٹی کی حمایت میں پڑتا ہے تو یہ تمام تینوں پارٹیوں بری خبر ہوگی۔
یہی ایک وجہہ ہے کہ حال کے دنوں میں دہلی وقف بورڈ نے اماموں او رموذنین کے اعزازیہ میں اضافہ کا اعلان کیا جس پر بی جے پی او رکانگریس دونوں سرخ ہوگئے ہیں۔
دو روز قبل بی جے پی نے عام آدمی پارٹی پر الزام عائد کیا کہ وہ مسلمانوں کی آؤ بھگت کے لئے عوامی پیسے کا بیجا استعمال کررہی ہے۔
اس کے رکن اسمبلی وجیندر گپتا نے کہاکہ ”عام آدمی پارٹی نے وقف بورڈ کے فنڈ کا بیجا استعمال کرتے ہوئے ووٹروں کولبھانے کی کوشش کی ہے وہ بھی حمایت حاصل کرنے کے لئے ایک مخصوص علاقے میں یہ کام کیاگیاہے۔
وہ کروڑ ہا روپئے اماموں او رموذنین میں اعزازیہ اور تنخواہ کے نام پر تقسیم کررہے ہیں“۔
اس اقدام کو سیاسی حربہ قراردیتے ہوئے دہلی کانگریس کے کارگذار صدر ہارون یوسف نے فیصلے کے وقت پر سوال اٹھایا۔
انہوں نے کہاکہ ”مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کے مقصد سے استعمال کیاگیا حربہ ہے۔ یہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلا ف ورزی ہے“۔
مگر اے اے پی نے اھنے فیصلے کی مدافعت میں کہاکہ یہ ”کافی وقت قبل“ لیاگیا فیصلہ ہے۔
دہلی وقف بورڈ کے چیرمن امانت اللہ خان نے کہا ہے کہ”دہلی وقف بورڈ ایک خود مختار ادارہ ہے۔
تنخواہوں میں اضافہ کا فیصلہ نومبر2018میں لیاگیا ہے‘ جس پر اب نفاذ عمل میں لایاجارہا ہے۔ اس میں ضابطہ اخلاق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہے“