وزیراعظم نریندر مودی پورے پانچ سال کے انتظار کے بعد جمعہ کو میڈیا کے سامنے ائے‘ لوک سبھا کی انتخابی مہم کے اختتام کے اگلے دن بی جے پی کے صدر دفتر میں پارٹی کے صدر امیت شاہ کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کے لئے تیار ہوئے تو لگا کہ وہ صحافیوں کے سوالوں کا سامنا کرنے کا حوصلہ جٹالائے۔
چلو کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے پانچ سال تک نہ سہی‘ دوران تشہیر بھی نہیں‘ جب انہو ں نے ملک کے کونے کونے میں گرواڑی ادی‘ انتخابی تشہیر کی تکمیل کے مرحلے میں ہی وزیراعظم کی پریس کانفرنس تو ہوئی دنیا بھی کیا یادرکھے گی لیکن اسے بسا آرزو کہ خاک شدہ۔ وہ مودی ہی کیا جو اپنی روش سے ہٹ جائے۔
کسی وزیراعظم کی پریس کانفرنس کا ایسا مذاق دنیا نے پہلے شائد ہی کبھی آڑایا جارہا ہے اور نہ جانے کب تک آڑایا جاتا رہے گا۔ تاریخ کا یہ باب رقم‘ کرنا بھی نریندر مودی کے حصے میں ہی تھا۔
حد تو جب ہوگئی کہ ملک کے ایک بہت ہی مقبول ٹی وی چینل کی ایک خاتون اینکر جو اپنے تیکھے تیوروں کے لئے دوردورتک جانی جاتی ہیں۔
بڑے بڑ ے دانشواروں کو خاطر میں نہیں لاتیں‘ وزیراعظم سے کچھ اس انداز میں سوال پوچھنے کی اجازت طلب کررہی تھیں جیسے کہہ رہی ہوں۔
ظل الہی! جان کی امان پاؤں تو عرض کروں‘ لیکن یہ سوال بھی مودی کی سرکار میں باریاب نہ ہو ا‘ بغل میں موجود امیت شاہ کی طرف ٹال دیاگیا۔
گویا اکیسویں صدی کے کسی جمہوری ملک کے وزیراعظم کی پریس کانفرنس نہ ہوئی‘عہدہ وسطی کے راجا مہاراجا کا دربارہ ہوگیا‘ سارا منظر‘ اکبر بیربل کے قصوں میں موجود دربار کاتھا جس پر آپ ہنس سکتے ہیں نہ روسکتے ہیں۔
وزیر اعظم کے چہیتی او ربھوپال سے پارٹی کی امیدوار نام نہاد سادھوی پرگیا سنگھ ٹھاکر نے بابائے قوم مہاتماگاندھی کی کھلی توہین کی تھی‘ باپو کے قاتل ناتھو رام گوڈ سے کے تعلق سے کہاتھا کہ وہ دیش بھگت تھے‘ دیش بھگت ہیں او ردیش بھگت رہیں گے۔
اس کی اس جرات نے ہندوستان کے ہر سچے فرزند کو آتش زیرو پاکردیاتھا‘ ہر ذی شعور ہندوستانی ے چین تھا‘ دنیاسننا چاہتی تھی کہ وزیراعظم کیا کہتے ہیں‘
دہشت گردی کی ملزمہ پرگیا سنگھ ٹھاکر کیاس منھ زوری پر مودی کی کیارائے ہے وہ اس گناہ کی کیاسزا تجویز کرتے ہیں کیاکاروئی کرنے کی عندیہ دیتے ہیں لیکن مودی نے اس سوال کو ٹال کر بے نقاب کردیا ہے کہ ان کے دل میں بابائے قوم مہاتماگاندھی کا کتنا احترام ہے۔
ایسا نہیں کہ مودی نے پرگیا کی جسارت پر کچھ نہیں کہا۔ وہ اس کانفرنس سے پہلے ایک انٹرویو میں اپنے دیرینہ ڈرامائی انداز میں کہہ چکے تھے کہ س سے ان کو سخت تکلیف پہنچی ہے۔
اس کے لئے وے اس کو کبھی معاف نہیں کری گے گویا ایسا بھی نہیں کہ وہ پرگیا سنگھ ٹھاکر کو مجرم نہیں سمجھتے‘ ان کو احساس ہے کہ وہ باپو کے قاتل کو دیش بھگت کہنے کے جرمن کا دفاع نہیں کرسکتے لیکن جب ان سے سوال کیاجاتا ہے تو وہ اس پر کیا کاروائی کریں گے تو وہ اس کو ٹال جاتے ہیں