کل ہند مسلم خواتین پرسنل لا بورڈ کا بیان، مختلف مسلم خواتین تنظیموں کا احتجاج
لکھنؤ ۔ 27 ڈسمبر (سیاست ڈاٹ کام) طلاق ثلاثہ بل پارلیمنٹ میں پیش کرنے سے ایک دن پہلے مسلم خواتین کی بعض تنظیموں نے آج کہا کہ مجوزہ قانون سازی ناقابل قبول ہوگی۔ اگر وہ قرآن مجید کے یا دستور ہند کے احکام کے خلاف ہو۔ کل ہند مسلم خواتین پرسنل لاء بورڈ کی صدرنشین شائستہ عنبر نے کہا کہ نکاح ایک معاہدہ ہے۔ جو بھی اسے توڑتا ہے اسے سزاء دی جانی چاہئے۔ تاہم اگر یہ (بل) قرآن مجید کی اور دستورہند کی روشنی میں نہیں ہے تو ہمارے لئے ناقابل قبول ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایک مکتوب لا کمیشن کو روانہ کرکے درخواست کرچکی ہیں کہ مسودہ قانون کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے ہند، مطلقہ خواتین کیلئے کام کرنے والی تنظیموں کو دکھایا جائے جس پر بحث کی جائے گی لیکن انہیں جواب ملا کہ اگر ضرورت ہو تو اس پر بحث ہوسکتی ہے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ پرسنل لاء بورڈ کو موجودہ صورتحال کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے شائستہ عنبر نے کہا کہ تاہم بورڈ نے طلاق ثلاثہ کے مسئلہ پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا اور جب کیا تو بہت تاخیر ہوچکی تھی۔ مسلم خواتین لیگ کی صدر نائش حسن نے کہا کہ فیملی کورٹ ایکٹ میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی تبدیلی ہوتی رہی ہے تاکہ ایک خاندان کو بچایا جائے۔ تاہم مجوزہ مسودہ قانون میں ایسا کوئی موقع نہیں دیا گیا۔ تیسرے فریق کو ہمیشہ مسودہ قانون میں شکایت کا موقع دیا جانا چاہئے ورنہ یہ ناانصافی ہوگی۔ ہم بل کی مباحث کے بغیر منظوری پر احتجاج کریں گے۔ بل سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے قبل ازیں کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ کہہ چکا ہیکہ مجوزہ قانون سازی دستور کی دفعات اور خواتین کے حقوق کے خلاف ہے۔ اگست میں سپریم کورٹ نے تین کے مقابل دو کی اکثریت سے فیصلہ سنایا تھا کہ مسلمانوں میں طلاق ثلاثہ کا رواج ’’کالعدم، غیرقانونی اور غیردستوری‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد حکومت نے مسلم خواتین تحفظ ازدواجی حقوق بل کی تیاری شروع کردی جس کے مطابق شوہر کیلئے سزائے قید تجویز کی گئی اور اس بل میں طلاق ثلاثہ کو تعزیری جرم قرار دینے کی بھی تجویز پیش کی گئی ہے۔