گاؤکشی کے نام پر انسانیت کے قتل کی مذمت‘ ضمیر کی آواز پر ووٹ دینے منتخب نمائندوں سے اپیل
حیدرآباد ۔ 3جولائی ( سیاست نیوز) اپوزیشن کی صدارتی امیدوار میرا کمار نے صدارتی انتخابات کو اصولوں اور نظریات کی جنگ قرار دیتے ہوئے انہیں بلی کا بکرا بنانے کی تردید کی اور تلنگانہ بل کی پارلیمنٹ میں منظوری کو تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے ضمیر کی آواز پر ووٹ دینے کی تلنگانہ کے عوامی منتخب نمائندوں سے اپیل کی ۔ آج گاندھی بھون میں پریس کانفرنس سے وہ خطاب کررہی تھیں۔ اس موقع پر صدر تلنگانہ پردیش کانگریس کمیٹی اُتم کمار ریڈی قائدین اپوزیشن کے جانا ریڈی ( اسمبلی ) ‘ محمد علی شبیر ( کونسل ) سابق مرکزی وزراء پون کمار بنسل ‘ سروے ستیہ نارائنا کے علاوہ دوسرے قائدین موجود تھے ۔ میرا کمار نے گاؤکشی کے نام پر انسانیت کا قتل کرنے کی سخت مذمت کرتے ہوئے ملک میں اظہار خیال کی آزادی بھی چھین لینے کی کوشش کرنے کا الزام عائدکیا ۔ مختلف طریقوں سے عوام میں ڈر و خوف پیدا کرتے ہوئے ماحول کو خراب کیا جارہا ہے ۔ کشمیر کے مسئلہ سے نمٹنے میں این ڈی اے حکومت پوری طرح ناکام ہوچکی ہے ۔ میرا کمار نے کہا کہ تمام اپوزیشن جماعتوں نے جن کے درمیان نظریاتی اختلافات ہیں ۔ تاہم تمام جماعتوں نے صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور مجھے اتفاق رائے سے امیدوار بنایا ہے جس پر وہ صدر کانگریس مسز سونیا گاندھی کے علاوہ ان کی تائید کرنے والی تمام سیاسی جماعتوں سے اظہار تشکر کرتی ہیں ۔ بہار کے بشمول ملک کیتمام ریاستوں سے انہیں بھرپور تائید حاصل ہورہی ہے اور ہر ریاست انہیں گھر جیسا لگ رہا ہے ۔ نتیش کمار کی تائید حاصل نہ ہونے پر پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ ابھی بہار نہیں گئی ہیں‘ بہار جانے کے بعد سیاسی صورتحال تبدیل ہونے کے امکانات ہیں ۔ نتیش کمار نے سیاسی فیصلہ کیا ہے ‘ انہیں یقین ہیکہ نتیش کمار اور ان کی جماعت اپنے فیصلہ پر نظرثانی کرے گے ۔ مجلس کو بھی وہ مکتوب روانہ کرتے ہوئے ووٹ دینے کی اپیل کرچکی ہیں ۔ میرا کمار نے کہا کہ وہ گذشتہ 8دن سے مختلف ریاستوں کا درہ کرچکی ہیں جہاں بھی گئی انہیں اپنائیت کا احساس ہوا ہے ۔ تلنگانہ سے ان کا گہرا رشتہ ہے ۔ جب وہ اسپیکر لوک سبھا تھیںتب تلنگانہ کا تاریخی بل پیش کیا گیا تھا ‘ تلنگانہ کے عوام علحدہ تلنگانہ کی تشکیل کیلئے 60 سال سے جدوجہد کررہے تھے ۔ انہوں نے تلنگانہ عوام کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے بل کو پارلیمنٹ میں منظور کرانے میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ ترقی کے معنی صرف سڑکیں ‘ پل تعمیر ہونا ‘ صنعتیں قائم ہونا ہی نہیں بلکہ اعلیٰ ترقی دلتوں اور اقلیتوں کی ترقی ہے ۔ ان کے جذبات کا احترام کرنا ہے ‘ ان کی پسماندگی کو دور کرنا ہے ۔ دلتوں اور اقلیتوں کو کتنی عزت دی جارہی ہے یہ بنیادی بات ہے ‘ انہیں امید ہے تلنگانہ کے عوامی منتخب نمائندے اصول اور نظریات کی لڑائی میں ضمیر کی آواز پر انہیں ووٹ دینگے اور ضمیر کی آواز پر ملنے والے ووٹ ان کی کامیابی میں اہم رول ادا کریں گے ۔ اپوزیشن کی جانب سے انہیں بلی کا بکرا بنانے کے سوال کو مسترد کرتے ہوئے میرا کمار نے کہا کہ بلی کے بکرے اصولوں اور نظریات کی لڑائی نہیں لڑتے ‘صدارتی انتخابات میں وہ کافی طاقتور امیدوار ہیں ۔ 17 اپوزیشن جماعتوں نے ان کی تائید کی ہے اور عام آدمی پارٹی کی تائید بھی انہیں مل رہی ہے ۔ صدارتی انتخابات میں وہ تنہا نہیں ہیں ۔ انکی تائید کرنے والی جماعتیں کافی مستحکم ہیں ۔ میرا کمار نے کہا کہ ان کا انتخابی ایجنڈا پوری طرح واضح ہے ۔ وہ نظریات اور اصولوں کی جنگ لڑرہی ہیں ۔ دلت بمقابلہ دلت ہرگز الیکشن نہیں ہے ۔ سیاسی آزادی ‘ معاشی آزادی اور سماجی انصاف کو بنیاد بناکر وہ عوام بالحصوص عوامی منتخب نمائندوں سے رجوع ہورہی ہیں اور انہیں بھرپور تائید حاصل ہورہی ہے ۔ ملک سے اقلیتوں ‘ دلتوں اور قبائیلی طبقات سے انصاف کرنا ان کے مسائل کو حل کرنا وقت کا تقاضہ ہے ۔