۔6 گھنٹے میں 7 سنٹی میٹر بارش سے حکومت کے ہوش اڑ گئے، ڈرینج نظام بری طرح مفلوج، ہر جگہ ٹریفک جام، بلدی نظم و نسق ٹھپ
حیدرآباد۔31اگسٹ (سیاست نیوز ) شہر حیدرآباد جھیل میں تبدیل ہوگیا‘ موسلا دھار بارش نے شہریوں کو گھروں میں محروس کردیا اور بلدیہ و حکومت کی لاپرواہی نے سڑکوں تک پہنچنے والوں کو سر راہ گاڑیاں چھوڑ کر بارش سے بچنے کی تدابیر اختیار کرنے پر مجبور کردیاکیونکہ دونوں شہروں کی کوئی ایسی سڑک باقی نہیں رہی جہاں سڑکیں جھیل کا منظر نہیں پیش کر رہی تھیں۔حیدرآباد کی سڑکوں کے ساتھ حیدرآباد میں چلائی جانے والی ایم ایم ٹی ایس ٹرین سروس کو بھی 4بجے تک کیلئے معطل کردیا گیا۔ شہر کے پاش علاقے ہوں یا پھر نشیبی علاقہ ہر جگہ سے اس بات کی شکایتیں موصول ہوتی رہی کہ گھروں میں پانی داخل ہونے لگا ہے اور پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔صبح کی اولین ساعتوں کے ساتھ ہی شروع ہوئی موسلادھار بارش کی رفتار میں قریب10بجکر 30منٹ پر کچھ کمی واقع ہوئی ۔اس کے باوجود کئی گھنٹوں تک شہر کے تاجرین و مکینوں میں خوف ہراس کا عالم دیکھا گیا کیونکہ عرصہ بعد اس رفتار کے ساتھ بارش اور مسلسل بارش کے علاوہ ہر علاقہ میں پانی جمع دیکھا جانے لگا تھا۔ 6گھنٹے کے دوران مجموعی اعتبار سے دونوں شہروں میں ہوئی 7سنٹی میٹر بارش نے حکومت کے ہوش اڑا دیئے کیونکہ اس بارش کے ساتھ ہی درخت‘ دیوار ‘ مکان گرنے کی اطلاعات کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ہر علاقہ سے پانی کی نکاسی میں مدد طلب کی جانے لگی تھی۔ چند گھنٹوں تک ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے شہر میں ڈرینیج نظام مکمل مفلوج ہو گیا تھا اور اس مفلوج نظام کو کارکرد بنانے میں حکومت کی مشنری ناکام ہو چکی ہے۔
دونوں شہروں میں اس تباہ کن بارش نے 8افراد کی جان لے لی جن میں 7کی دیوار گرنے سے موت واقع ہوئی اور ایک شخص برقی شاک کے سبب لقمۂ اجل بنا۔بھولکپور مشیرآباد کے علاقہ میں مخدوش عمارت میں قیام پذیر 25سالہ بلقیس بیگم اپنی دو دختران دو سالہ زیبا فاطمہ اور ایک سالہ ماریہ فاطمہ کے ساتھ عمارت کے منہدم ہونے کے سبب جاں بحق ہو گئی۔ مکان کے اچانک منہدم ہونے کے سبب اندرونی حصہ میں موجود الماری ان معصوموں پر جا گری ۔ عمارت کے گرنے کے ساتھ ہی مقامی عوام انہیں بچانے کیلئے دوڑے لیکن عمارت میں برقی لہریں دوڑنے کے سبب وہ ایک گھنٹے تک مدد کیلئے قریب بھی نہیں پہنچ پائے اور زائد از ایک گھنٹہ بعد ٹرانسکو عملہ نے علاقہ میں برقی سربراہی کو منقطع کیا جس کے بعد بلقیس بیگم او ر ان کی معصوم لڑکیوں کی نعشوں کو باہر نکالا گیا جہاں سے انہیں گاندھی ہاسپٹل کے مردہ خانہ منتقل کیا گیا۔ موسلا دھار بارش اور مکان گرنے کے وقت بلقیس بیگم کے شوہر مکان میں موجود نہیں تھے۔رامنتا پورکے علاقہ پرگتی نگر میں قدیم دیوار کے جھونپڑی پر گرنے سے40سالہ جے بالا سوامی اس کی اہلیہ35سالہ چنماں کے علاوہ ایک بیٹی پاروتی18سال اور11سالہ بیٹا شیکھر ہلاک ہو گئے۔ اسی طرح پرانے شہر کے علاقہ جہاں نما میں ایک نا معلوم شخص کی برقی شاک لگنے سے موت واقع ہونے کی اطلاع ہے جو صبح کی اولین ساعتوں میں ہونے والی موسلادھار بارش سے بچنے کیلئے سائے میں ٹھہرا ہوا تھا کہ جسم میں برقی رو دوڑ گئی۔حکومت تلنگانہ کی جانب سے دیوار کرنے سے فوت ہونے والوں کے لواحقین کو 2لاکھ روپئے ایکس گریشیاء دینے کا اعلان کیا گیا جبکہ مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد کی جانب سے متوفیوں کے ورثاء کو فی کس دو لاکھ روپئے ادا کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ریاستی وزیر بلدی نظم و نسق نے دونوں جائے حادثات کا معائنہ کرنے کے بعد گاندھی ہاسپٹل پہنچ کر مہلوکین کے ورثاء سے ملاقات کی۔بندلہ گوڑہ کے قریب واقع ایرہ کنٹہ تالاب لبریز ہو جانے کے سبب پانی شاہراہ پر پہنچ گیا جس کے سبب 4گھنٹے سے زائد ٹریفک مفلوج رہی آرام گھر‘ شمس آباد ائیر پورٹ ‘ بدویل پہنچنے کی کوشش کرنے والے 4گھنٹوں تک اس ٹریفک جام میں پھنسے رہے۔ دونوں شہروں ،پڑوسی ضلع رنگا ریڈی اور میدک کے کئی علاقوں کے علاوہ محبوب نگر کے کچھ حصوں میں بھی شدید بارش ریکارڈ کی گئی ۔
دونوں شہروں میں کئی مقامات پر عمارتوں کے منہدم ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ لال دروازہ ‘ پیٹلہ برج کے علاوہ دیگر علاقوں میں دیواروں کے منہدم ہونے کے واقعات پیش آئے۔ لیکن ان جائے حادثات پر کوئی زخمی نہیں ہوا کیونکہ یہ عمارتیں مخلوعہ تھیں۔ اسی طرح شہر کے مختلف مقامات پر تیز ہواؤں کے سبب درخت اکھڑ گئے جس کے سبب کئی گھنٹوں تک برقی سربراہی و ٹریفک نظام درہم برہم ہو گیا تھا۔ ماہرین و محکمۂ موسمیات کے بموجب شہر میں 15سال بعد اتنی شدید بارش ریکارڈ کی گئی جس کے نتیجہ میں شہر کا ہر حصہ سیلاب کا منظر پیش کر رہا تھا۔بنجارہ ہلز ‘ جوبلی ہلز ‘ مادھا پور‘ حمایت نگر‘ بشیر باغ‘ چارمینار‘ محبوب چوک‘ شاہ علی بنڈہ‘ ودیا نگر‘ شیوم روڈ‘ عنبر پیٹ‘ جامعہ عثمانیہ‘ مہدی پٹنم‘ مانصاحب ٹینک‘ تالاب کٹہ‘ امان نگر‘ یاقوت پورہ‘ ملک پیٹ ‘ سوماجی گوڑہ‘ حیدرگوڑہ‘ عیدی بازار ‘ نلہ کنٹہ‘ کالا پتھر ‘ بہادر پورہ‘ کشن باغ ‘ عطاپور ‘ کوکٹ پلی ‘ نظام پیٹ ‘ میاں پور‘ جل پلی کے علاقوں میں پانی جمع ہونے کی شکایات موصول ہوئی۔ حلقۂ اسمبلی ملک پیٹ میں سعید آباد کالونی‘ چنچل گوڑہ‘ اکبر باغ‘ عثمان پورہ‘ کے علاوہ حلقۂ اسمبلی کاروان میں ندیم کالونی‘ ٹولی چوکی ‘ گولکنڈہ کے علاوہ کئی علاقوں میں بارش کے سبب عوام دوپہر تک بھی گھروں میں محروس رہے۔ بلدیہ کی جانب سے بارش کے پانی کی نکاسی کے مناسب انتظامات نہ کئے جانے کے سبب عوام میں شدید برہمی دیکھی گئی کیونکہ اب تک شہریوں نے اس طرح کی صورتحال کا کبھی سامنا نہیں کیا تھا۔ حیدرآباد و سکندرآباد کے کئی علاقوں میں درختوں کے کے اکھڑ جانے کے باعـث برقی سربراہی کی بحالی میں دشواریاں پیش آرہی تھیں۔ شہر کے نواحی علاقوں میں موجود تالابوں کی سطح آب میں ہوئے اضافہ کے سبب اطراف کے علاقوں میں چوکسی اختیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ریاستی وزیر بلدی نظم و نسق مسٹر کے ٹی راما راؤ نے بتایا کہ صبح بارش کے دوران 203شکایات موصول ہوئیں
جن میں 83شکایات کی یکسوئی کردی گئی۔ علاوہ ازیں 940مخدوش و نشیبی علاقوں کی عمارتوں کا تخلیہ کروایا گیا ہے اور ان عمارتوں کے مکینوں کو محفوظ مقام منتقل کردیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ محکمۂ موسمیات کی پیش قیاسی کے پیش نظر بلدی عہدیداروں کو آئندہ48گھنٹوں کے دوران بھی سخت چوکسی اختیار کرنے کی ہدایت دی گئی ہے۔ کے ٹی آر نے شہر کے مختلف علاقوں میں جمع پانی کا جائزہ لینے کے بعد کہا کہ پانی کی نکاسی کیلئے ممکنہ اقدامات کئے گئے ہیں۔ موسلادھار بارش کے ساتھ شہر کی بگڑتی صورتحال دیکھتے ہوئے چیف سکریٹری مسٹر راجیو شرما نے کمشنر بلدیہ عظیم تر حیدرآباد ڈاکٹر جناردھن ریڈی سے تفصیلات حاصل کیں۔ صورتحال کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مئیر مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد مسٹر بی رام موہن اور ڈپٹی مئیر مسٹر بابا فصیح الدین بھی عہدیداروں کے ہمراہ بارش کے پانی کی نکاسی کے کاموں کا جائزہ لے رہے تھے۔اعظم پورہ علاقہ میں موجود انڈر برج کے علاوہ ریل نیلائم ایلفانٹا برج و دیگر انڈر برجس کے پاس صورتحال انتہائی ابتر رہی۔ ناگول‘ مشیرآباد‘ پرانا پل‘ کوٹھی ‘ عابڈز ‘ چمپا پیٹ ‘ سنتوش نگر ‘ ایل بی نگر‘ شاستری پورم‘ نامپلی کے علاوہ دیگر علاقوں میں بھی کئی گھنٹوں تک ٹریفک جام رہی۔ سرور نگر تالاب‘ میر عالم تالاب‘ چیرلہ پلی تالاب کے علاوہ دیگر تالابوں کی صورتحال پر گہری نظر رکھی جا رہی ہے۔بلدیہ کے صدر دفتر میں قائم کئے گئے کنٹرول روم کے علاوہ محکمۂ پولیس کے کنٹرول روم سے موصول ہونے والی اطلاعات کی بنیاد پر بلدیہ کا ایمرجنسی عملہ خدمات انجام دے رہا ہے اور محکمۂ ٹریفک پولیس کی جانب سے دن کے وقت ٹریفک نظام بحال کرنے کی متعدد کوششیں ناکام نظر آئیں اور کئی مقامات پر پولیس کا عملہ موجود نہیں تھا جس کے سبب عوام کی جانب سے ٹریفک بحال کرنے کی کوشش کی جا تی رہی ۔