یکم فروری سے عمل آوری کا منصوبہ، حکومت سے رہنمایانہ خطوط کا انتظار، صدرنشین وقف بورڈ محمد سلیم کی کامیاب مساعی
’’شریعت کے مطابق نکاح پر خیر و برکت واپس آسکتی ہے‘‘
علماء و مشائخین، پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں اور قاضیوں کا اجلاس
حیدرآباد۔23 ۔ جنوری (سیاست نیوز) شادی بیاہ کی تقاریب رات 12 بجے تک مکمل کرنے اور سماجی برائیوں پر قابو پانے کے مقصد سے صدرنشین وقف بورڈ محمد سلیم کی جانب سے طلب کردہ مشاورتی اجلاس میں علمائے کرام ، مشائخین ، پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں ، مسلم تنظیموں کے نمائندوں اور قاضیوں نے شعور بیداری کے ذریعہ برائیوں پر قابو پانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حج ہاؤز میں آج منعقدہ اجلاس میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی 50 سے زائد شخصیتوں نے شرکت کی اور شادی بیاہ کے موقع پر اسراف ، بارات ، رقص اور دیگر برائیوں کو روکنے کیلئے حکومت کے تعاون سے مہم چلانے سے اتفاق کیا۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ حکومت کو تفصیلات روانہ کرتے ہوئے اس بات کی خواہش کی جائے کہ وہ رہنمایانہ خطوط جاری کرے تاکہ تقاریب کے ساتھ ساتھ شادی خانوں پر بھی کنٹرول کیا جاسکے۔ حکومت کے رہنمایانہ خطوط کے بعد پولیس سختی سے عمل کرے گی تاکہ نوجوان نسل کو برائیوں اور جرائم سے روکنے کے علاوہ رات دیر گئے تک تقاریب کے انعقاد کو روکا جاسکے۔ صدرنشین وقف بورڈ محمد سلیم نے اجلاس کو بتایا کہ وہ روداد کی تفصیلات حکومت کو روانہ کرتے ہوئے تقاریب کے سلسلہ میں گائیڈ لائینس حاصل کریں گے ۔ انہوں نے کہا کہ یکم فروری سے شادیوں کی تقاریب کو رات 12 بجے مکمل کرنے کی مہم شروع کی جائے گی ۔ اس مہم کے تحت نہ صرف خلاف ورزی کرنے والوں بلکہ شادی خانوں کے مالکین اور قاضیوں کو بھی پولیس کے ذریعہ پابند کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اجلاس میں شریک پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں نے تحریک کی تائید کی اور ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر علمائے کرام اور قاضی حضرات شعور بیداری کے ذریعہ شرائط پر سختی سے عمل کریں تو نہ صرف تقاریب کا جلد اختتام ہوگا بلکہ نوجوان نسل کو جرائم اور بیجا رسومات سے بچایا جاسکے گا۔ پولیس عہدیداروں نے سماج سے برائیوں اور خرافات کے خاتمہ کی مہم میں مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ علمائے کرام اور مسلم تنظیموں کے سربراہوں نے کہا کہ اگر پولیس کی جانب سے سختی کی جائے تو شادیوں میں بارات ، رقص ، باجے ، آتشبازی ، آرکسٹرا اور دیگر برائیوں کا خاتمہ ممکن ہے اور یہ برائیاں شریعت کے عین خلاف ہے۔ اسلام نے نکاح کا جو طریقہ بیان کیا ہے، اس کے مطابق اگر نکاح منعقد کئے جائیں تو اس سے مسلم سماج میں خیر و برکت واپس آسکتی ہے۔ اجلاس میں جن امور پر اتفاق رائے پایا گیا، وہ یوں ہیں : جہیز کی لعنت کا خاتمہ ، نماز عشاء تک مسجد میں نکاح کی تکمیل تاکہ ڈنر کا جلد آغاز ہوسکے اور ڈنر کے بعد تقریب کسی بھی حالت میں رات 12 بجے اختتام کو پہنچے۔ ڈنر میں سادگی کے ساتھ ایک بریانی ، سالن اور میٹھا رکھا جائے ۔ تقریب اور بارات میں ہتھیاروں کا استعمال روکنے کیلئے پولیس کو اطلاع دی جائے تاکہ خاطیوں کے خلاف کارروائی کی جاسکے۔ قاضی صاحبین کو پابند کیا جائے گا کہ وہ 9 بجے شب کے بعد نکاح نہ پڑھیں۔ فنکشن ہال کا انتظامیہ نوٹس بورڈ پر یہ واضح کرے کہ رات 12 بجے برقی سربراہی منقطع کردی جائے گی اور شادی خانہ اس وقت تک خالی کردیا جائے۔ علمائے کرام ، مفتیان کرام ، ائمہ و خطیب صاحبان سے شعور بیداری میں اہم رول ادا کرنے کی اپیل کی گئی ۔ معززین اور اہم شخصیتوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ اپنی تقاریب کو سادہ بناتے ہوئے شریعت پر عمل کریں اور ان کی تقاریب سماج کیلئے مثالی رہے۔ رقص و سرور ، آرکسٹرا ، بیانڈ باجہ، ہتھیاروں کے ساتھ رقص اور پرتکلف دعوتوں کے بائیکاٹ کی اپیل کی گئی ۔ صدرنشین وقف بورڈ محمد سلیم نے اجلاس کے اغراض و مقاصد بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے صدرنشین وقف بورڈ کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک عام مسلمان کے ناطے یہ مہم شروع کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عام طور پر شادی کی تقاریب رات 10 بجے کے بعد شروع ہورہی ہے اور صبح 4 بجے تک جاری رہتی ہے جس سے معمولاتِ زندگی بری طرح متاثر ہے۔ بچوں کی تعلیم متاثر ہورہی ہے اور کاروباری حضرات بھی پریشان ہیں۔ معمولاتِ زندگی میں تبدیلی سے صحت متاثر ہورہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ متوسط اور غریب طبقات کیلئے یہ تقاریب زحمت کا باعث بن چکی ہے۔ پر تکلف دعوت اور شان و شوکت کے اظہار پر لاکھوں روپئے خرچ کئے جارہے ہیں۔ تقاریب کو سماج میں عزت کا مسئلہ بنالیا گیا ہے ۔ غریب افراد اپنی جائیداد کو فروخت کرنے یا رہن پر مجبور ہیں۔ (سلسلہ صفحہ 6 پر)