سولہویں لوک سبھا کے لئے اترپردیش سے پہلی مسلم رکن پارلیمنٹ تبسم 

لکھنو۔تبسم حسن جن کی کیرانہ جیت سے مجوزہ2019کے جنرل الیکشن کے لئے اپوزیشن میں جہاں نئی جان بھردی ہے وہیں جمعرات کے روزرکن پارلیمنٹ وہ سولہویں لوک سبھا کے لئے اترپردیش سے منتخب ہونے والی پہلی مسلم رکن پارلیمنٹ بھی بن گئی۔

راشٹرایہ لوک دل کی امیدوار 48سالہ تبسم حسن کو سماج وادی پارٹی‘ کانگریس اور بھوجن سماج پارٹی کی حمایت حاصل تھی‘ انہوں نے بی جے پی کی امیدوار مارینگا سنگھ کو44,600ووٹ سے شکست فاش کیا۔

اپوزیتشن نے نور پور اسمبلی سیٹ پر بھی کامیابی حاصل کی جہاں سے سماج وادی پارٹی امیدوار نعیم السحن نے بی جے پی امیدوار کو شکست دی۔اترپردیش جہاں پر بیس فیصد مسلم آبادی کا تناسب ہے اس کے باوجود بھی 2014کے لو ک سبھا الیکشن میں ایک بھی مسلم امیدوار یہاں سے منتخب نہیں ہوا تھا۔

اترپردیش کی جملہ80لوک سبھا سیٹوں میں سے بی جے پی او را سکے ساتھی اپنا دل نے 2014میں73سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی۔

ایس پی کو پانچ اور کانگریس کو دو پر جیت حاصل ہوئی۔جیت کے بعد تبسم حسن نے کہاکہ ’’میری کامیابی ریاستی عوام کی جیت ہے جنھوں نے بی جے پی کی چار سالہ بد انتظامی کے خلاف اپنی برہمی کا اظہار کیاہے‘‘۔

انہوں نے الکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں خرابی کے متعلق شکایت پر کہاکہ ’’ اگر یہاں پر ای وی ایم کا مسئلہ نہیں ہوتاتو میرے جیت کا اوسط اور بھی بڑھ جاتا ‘‘۔

انہوں نے مزیدکہاکہ ’’ مجھے اپنی جیت پر یقین تھا کیونکہ عوام پر میں نے بھروسہ کیا‘‘۔ حسن نے دعوی کیا کہ اگلے سال لوک سبھا الیکشن میں وزیراعظم نریندر مودی کا کوئی اثر باقی نہیں رہے گا۔تبسم نے کہاکہ ’’ بی جے پی کے مغرور لوگ کہہ رہے تھے کہ مودی کا کوئی متبادل نہیں ہے مگر اوپر والی کی شان دیکھیں اس نے ہمیں اتحاد کا راستہ دیکھا یا ہے اور اپوزیشن پارٹیوں کی شکل میں بی جے پی کے خلاف 2019میں تیار کھڑا ہے۔

میری جیت نے ثابت کردیا ہے کہ 2019متحدہ اپوزیشن ہی ایک واحد راستہ ہے‘‘۔ حسن نے 2009لوک سبھا الیکشن میں بی ایس پی کے ٹکٹ پرمقابلے کرتے ہوئے سرگرم سیاست میں اس وقت قدم رکھا جب ایک ماہ قبل ہی ان کے شوہر منور حسن کا ہریانہ میں ایک کار حادثے میں موت ہوگئی تھی ‘ جنھوں نے بی جے پی امیدوار حکم سنگھ کو شکست دی تھی۔

سال 2014میں ان کے بیٹے ناہید حسن نے ایس پی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑا اور حکم سنگھ نے انہیں شکست دی۔ناہید نے 2017کے اسمبلی الیکشن میں حکم سنگھ کی بیٹی مارینگا سنگھ کے خلاف جیت حاصل کی۔کیرانہ لوک سبھا حلقہ میں16لاکھ ووٹرس ہیں جس میں مسلم رائے دہندوں کی تعداد بڑی ہے جو پانچ لاکھ پر مشتمل ہیں۔دلتوں اور جاٹ کی آبادی دولاکھ دولاکھ ہے۔

دوسرا بڑے جھول گجرووٹوں کا ہے جو ایک لاکھ پر مشتمل ہیں۔کیرانہ کی سیٹ پر بی جے پی رکن پارلیمنٹ حکم سنگھ کی موت کے بعد سے خالی تھی جہا ں سے بی جے پی نے ان کی بیٹی مارینگا سنگھ کو اپنا امیدوار بنایاتھا۔

کیرانہ میں اپوزیشن نے مخالف بی جے پی ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے اور گورکھپور اور پھلپور ضمنی انتخابات کی جیت کو دوارہتے ہوئے برسراقتدار سیاسی جماعت کو بدترین شکست سے دوچار کردیا۔ گورکھپور او رپھلپور میں چیف منسٹر اترپردیش یوگی ادتیہ ناتھ اور ان کے نائب کیشو پرساد موریہ کے یوپی اسمبلی میں داخلہ کے بعد ضمنی الیکشن منعقد کیاگیاتھا۔

بی جے پی نے کیرانہ میں سخت محنت اور خود چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ نے رائے دہندوں کو بی جے پی کی طرف راغب کرنے کی بھر پور کوشش کی تھی۔ سماج وادی پارٹی صدر اکھیلیش اور بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی نے خود کو انتخابی مہم سے دور رکھا تھا۔

وزیراعظم نریند ر مودی نے قریب کے ضلع باغپت کا دور ہ کرتے ہوئے وہاں پر مغربی اترپردیش کی ترقی کے متعلق بات کی اور ایک ایکسپریس وے کا بھی افتتاح انجام دیا ‘ مگر رائے دہندوں نے اپوزیشن کی تائید کا پہلے سے ہی من بنارکھا تھا۔

ایس پی ایم ایل سی راج پال کشایاپ نے کہاکہ’’ اس جیت سے پارٹی کارکنوں او ررائے دہندو ں کو ایک مضبوط پیغام پہنچا ہے۔ بی جے پی کی مخالف عوام پالیسیوں کا موقف واضح ہوگیا اور رائے دہندے متبادل کی طرف دیکھ رہے ہیں‘‘۔

آر ایل ڈی کے قومی ترجمان انل دوبے نے کہاکہ’’ ہماری پارٹی ایک اکیلے جیت نہیں ہے‘ بلکہ متحدہ اپوزیشن کی جیت ہے۔اس جیت کے ساتھ ہمیں بی جے پی کی کوششوں کے ذریعہ سماج میں پیدا کی گئی تفریق کو ختم کرکے انہیں متحدہ کرنے کا یہ ایک بہترین موقع ہے۔

ڈپٹی چیف منسٹر دنیش شرما نے کہاکہ بی جے پی کی سیاست کا انحصار شکست یا کامیابی پر نہیں ہے۔انہوں نے کہاکہ ’’ ہمارے یقین ترقی کے لئے کام کرنے پر ہیں اور ہم فرقہ وارانہ او رطبقہ واری خطوط پر الیکشن میں مقابلہ نہیں کرتے‘‘۔

انہو ں نے اپوزیشن پرفرقہ وارنہ اور طبقے واری اساس پر نفرت پھیلاتے ہوئے ووٹ حاصل کرنے کا بھی الزام عائد کیا۔ ریاست میں2014کے بعد چوتھا لوک سبھا ضمنی الیکشن کیرانہ میں ہوا تھا ‘ اس سے قبل گورکھپور‘ پھلپور اور مین پوری میں بھی ضمنی الیکشن ہوئے تھے۔

سماج وادی پارٹی کے بانی وک سابق صدر ملائم سنگھ یادو نے مین پوری سے استعفیٰ دیکر اعظم گڑھ کی نمائندگی کا فیصلہ کیاتھا جو سال2014میں ان کی جیت حاصل کرنے والا دوسرا حلقہ ثابت ہوا۔سماج وادی پارٹی کے تیج پرتاب سنگھ یادو جو ان کے قریبی ہیں نے بی جے پی کو ضمنی الیکشن میں شکست دیکر پارٹی کے لئے مذکورہ سیٹ پر اپنا قبضہ برقرار رکھا۔