نئی دہلی:یقیناًیہ بات خوشی کی ہے کہ سعودی عورتوں کو ایک تاریخی فیصلے کے بعد ڈرائیونگ کی منظوری دیدی گئی ہے مگر یہ ان چودہ لاکھ لوگوں کے لئے نہایت بری خبر ہے جو پہلے سے سعودی عربیہ میں ڈرائیونگ کے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
مملکت میں ہندوستانیوں کی بڑا طبقہ ہے جو برسر خدمت ہیں اور جن کا انحصار ڈرائیونگ پر ہے‘ اور اب ان افراد کو ملازمت اور کام چھوٹے کا خوف لاحق ہوگیا ہے کہ کیونکہ خانگی ڈرائیورس کی مانگ میں اب بڑی حدتک کمی اجائے گی اور مذکورہ ڈرائیورس کو اپنے وطن کوواپس ہونا پڑیگا۔تلنگانہ اور اترپردیش کے افراد کی زیادہ تعداد جو گھریلو ڈرائیورس کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔
یہ لوگ گھر کے خواتین کو کام کی جگہ‘ شاپس ‘ اسکولس اور کالج لے جانے اور واپس لانے کاکام کرتے ہیں۔جون 2018کے بعد ایک بار جب اس اعلان پر شروعات عمل میں ائے گی گھریلو ڈرائیورس کی جو سینکڑوں ‘ ہزاروں او رلاکھوں کی تعداد میں ہے انہیں نوکری سے ہاتھ دھونا پڑیگا۔پندرہ سے ستر سو سعودی ریال(26سے29ہزار انڈین روپئے) کمانے والے ڈرائیورس اپنا کمائی کا زیادہ تر پیسہ وطن بھیج دیتے ہیں۔
محمد وسیم جس کا تعلق تلنگانہ کے میٹ پلی سے ہے نے کہاکہ سعودی میں ایک گھریلو ڈرائیور کا رول کافی اہمیت کا حامل ہے اور اس تاریخی فیصلے کے ساتھ ’’ میری میڈیم کیا اپنے گھر کے قریب میں واقعہ بچے کو اسکول سے لانے جائیں گی‘‘۔
کاماریڈی سے تعلق رکھنے والے رامبھوپال ریڈی جو سعودی فیملی کی گاڑی ریاض میں چلاتے ہیں نے تلنگانہ ٹوڈے سے کہاکہ’’میں دوسوسعودی ریال بڑھنے کے متعلق بات کرنے کی سونچ رہا تھا مگر جب میں نے سنا ہے کہ عورتوں کو بھی گاڑی چلانے کی اجازت دیدی ہے تو میں نے فیصلہ کیا ہے کہ کچھ وقت کے لئے خاموش ہی بیٹھا رہوں‘‘۔