کیا آپس میں سر سے جڑی ہوئی دو جڑواں بہنوں کو ایک ووٹر شمار کیا جانا چاہئے؟ یہ سوال آپ کے دماغ میں بھی ابھر سکتا ہے، لیکن الیکشن کمیشن نے انہیں ایک ہی ووٹر تسلیم کیا ہے اور انہیں ایک مشترکہ ووٹر آئی ڈی کارڈ فراہم کیا ہے۔ یہ منفرد کہانی الیکشن کمیشن کی نئی کتاب ‘بیلٹل ان دی بیلٹ’ میں شائع ہوئی ہے جس کا اجراء صدر جمہوریہ پرنب مکرجی نے ‘قومی یوم رائے دہندگان’ کے موقع پر کیا۔ اس کتابچے میں انتخابات کے بارے میں 101 دلچسپ اور منفرد واقعات درج کئے گئے ہیں۔ محکمہ نشریات کی طرف سے شائع اس کتاب میں بہار کے دارالحکومت پٹنہ کے نزدیک دیگھا اسمبلی حلقے میں رہنے والی جڑواں بہنیں صبا اور فر ح کے ووٹ دینے کی کہانی بھی درج ہے جو سر سے جڑی ہوئی ہیں۔کتاب میں الیکشن کمیشن نے ان دونوں بہنوں کو دو الگ الگ شخصیت خیال کیا ہے لیکن ووٹر کے طور پر ایک ہی فرد شمار کیا ہے اور انہیں ایک ووٹر آئی ڈی کارڈ فراہم کیا ہے۔ کمیشن نے انہیں ایک ہی کارڈ دیا ہے
لیکن کتاب میں کمیشن نے یہ واضح نہیں کیا ہے کہ دو مختلف شخصیات کے باوجود انہیں ایک ہی ووٹر کیوں شمار کیا گیا ہے۔ یہ جڑواں بہنیں گزشتہ سال ہی 18 سال کی ہوئیں اور انہیں ووٹ دینے کا حق ملا۔ کتاب میں ایک دلچسپ قصہ یہ بھی درج ہے کہ تمل ناڈو میں ضلع یروڈ کے ارویروچی میں 2014 کے لوک سبھا انتخابات میں ایک ووٹر دھوتی پہن کر آیا جس پر ایک سیاسی پارٹی کا انتخابی نشان چھپا تھا۔ جس وجہ سے اس کو یہ کہہ کر لوٹا دیا گیا کہ کسی پارٹی کے انتخابی نشان والے کپڑے پہن کر ووٹ ڈالنا انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے اور پھر وہ ووٹر بھاگتے ہوئے گھر گیا تو اس نے پایا کہ اس کی بیوی گھر بند کر کہیں باہر چلی گئی تھی۔لیکن اس ووٹر میں ووٹ ڈالنے کا اتنا جوش تھا کہ اس نے ہار نہیں مانی اور یہ ووٹر باہر رکھی اپنی بیوی کی نائیٹی پہن کر ووٹ دینے چلا گیا۔تب تمام لوگ اس پر ہنس پڑے لیکن اس بار اسے ووٹ دینے کی اجازت دے دی گئی کیونکہ یہ انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی نہیں تھی۔کتاب میں تمل ناڈو کے تیس سالہ استاد وینکٹیشن کا بھی ذکر ہے جن کے دونوں ہاتھ کٹ چکے ہیں لیکن وہ اپنے منہ میں قلم کو دباکر اور اس سے ای وی ایم کا بٹن دبا کر ووٹ کرتے ہیں۔ ووٹنگ کی سیاہی ان کے پاؤں کے انگوٹھے میں لگائی جاتی ہے۔ یہی کہانی مہاراشٹر کے ایڈورڈ مورتی کی بھی ہے
جنہوں نے ریل حادثے میں اپنے دونوں ہاتھ گنوا دئیے ہیں، لیکن وہ کندھے سے خود ای وی ایم کا بٹن دبا کر ووٹ دیتی ہیں اور کسی کی مدد نہیں لیتی ہیں۔ کتاب میں دو فٹ کے بیس سالہ ووٹر نور انگے کا بھی ذکر ہے جو مہاراشٹر کے ناگپور کی رہنے والی ہیں اور دنیا کی سب سے چھوٹی خاتون ہیں۔ کتاب میں کئی ایسی انوکھی کہانیاں بھی ہیں جن میں ووٹر ووٹ ڈالنے سے پہلے عبادت کرتے ہیں۔ بہار اور اتر پردیش میں تو کچھ ووٹر ایسے پائے گئے، جو گاندھی جی اور نہرو جی کو ووٹ دینے کے لئے اڑ گئے، تب انہیں سمجھایا گیا کہ وہ تو آب کے مرحوم ہو گئے تب انہیں بات سمجھ میں آئی۔اسی طرح ایک ووٹر سیمار سین کو ووٹ ڈالنے کے لئے اڑ گئے جو ملک کے پہلے چیف الیکشن کمشنر تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ تمام پارٹیاں عوام کو پریشان کر تی ہیں اس لئے وہ صرف مسٹر سمار سین کو ووٹ دیں گے۔ اس کے بعد وہ بغیر ووٹ دیے ہی چلے گئے۔ اس طرح کی عجیب و غریب کہانیاں اس کتاب میں درج ہیں جن کی تعداد 101 ہے۔