نئی دہلی:۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ کا دو روزہ اجلاس حیدر آباد میں شروع ہو چکا ہے۔ا جلا س کے ایجنڈہ میں کئی موضوعات زیر غورہیں اور ان میں ایک نیا موضوع ہے نیاماڈل نکاح نامہ۔ جس نئے نکاح نامہ پر اجلاس میں گفتگو ہو نی ہے۔ اس نکاح نامہ میں طلاق کی شرط بھی نکاح کے وقت ہی طئے کی جا تی ہے۔یعنی علاحد گی کی صورت میں طاق کس طرح دی جا ئے گیاور اس کے کیا ضوابط ہو نگے۔
اجلاس میں اس بات پر بھی غور کیا جائے گا کہ اس نکاح نامہ میں یہ بھی رکھا جا ئے گا کہ طلاق کے بعد بچوں کی کفالت اور مطلقہ کے اخراجات کو بھی شامل کیا گیا ہے۔نکاح نامہ بنیادی طور پر لڑکے اور لڑکی کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔اور معاہدہ میں اتفاق رائے کے ساتھ دو نوں فریق ا اپنی اپنی شرط درج کر وا سکتے ہیں۔علیگڑھ یو نیور سئی کے بانی سر سید احمد خان کی پوتی شہزادی بیگم نے جب نکاح کیا تو اس میں اپنی مرضی کی کچھ شرائط پیش کیں جو نکاح نامہ میں شامل کی گئیں۔
یہاں غور طلب بات ہے کہ نکاح بھی اس وقت کے جید عالم دین نے پڑھا یا تھا۔شہزادی بیگم نے آکس فورڈیو نیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھیں۔اور وہ ایک قابل اور لائق پروفیسر تھیں۔انسے جب شادی کے لئے کہا گیا تو انھوں نے اپنے ماموں زاد بھائی علیم سے شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ۔علیم ویسے تو خوب صورت تو تھالیکن تعلیم کے اعتبار سے شہزادی کے مقابلہ کے نہیں تھا۔ذرائع کے مطابق ۱۹۷۱ء میں جب ان کی شادی ہوئی تو ان کا نکاح مفتی عتیق الرحمان عثمانی نے پڑھا یاتھا۔بتا یا جا تا ہے کہ عین نکاح کے وقت شہزادی نے اندر سے ایک پرچہ بھیجااس میں کچھ شرائط درج تھیں ۔
ان میں ایک شرط یہ بھی کہ ان کے شوہر ان کی زندگی میں دوسری شادی نہیں کریں گے۔دوسری شرط یہ تھی کہ انہیں اپنے شوہر کے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ وہ خود کفیل ہیں۔اسی طرح کے کئی شرائط درج تھیں ۔ ان میںآخری شرط یہ تھی کہ اگر طلاق کی نو بت آتی ہے تو اس صورت میں دودو افراد دونوں جانب نا مزدکئے جا ئیں گے ۔جو طئے کریں گے کہ ان کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری کس کی ہوگی اور وہ کس کے پاس رہیں گے
۔سرسید کی پوتی کے ذریعہ پیش کی گئی شرائط کو مفتی صاحب کی کو جو دگی میں شامل کیا گیا تھا۔جس سے یہ بات صاف ہے کہ اسلام میں اس کی گنجائش ہے۔اگر نہیں تھی توپھر علماء نے اس پراعتراض کیوں نہیں کیا۔