مظفر نگر۔یوپی کے مظفر نگر میں سال2013میں پیش ائے فرقہ وارانہ فسادات کی آنچ آج بھی محسوس کی جاسکتی ہے ۔ لوگوں کی زندگی پوری طرح سے پٹری پر اب بھی نہیں لوٹ سکی۔
اس سب کے بیچ ایک شخص ایسا بھی ہے جو دومذہبوں کے درمیان کے فرق کو ختم کرنے کی کوشش میں لگاہوا ہے۔ پانچ سال سے59سالہ رام ویر کشیاپ فسادات میں بچائی گئی مسجد کی دیکھ بھال کررہا ہے ۔کشیدگی کے درمیان میں مذہبی روداری کے اس مسلئے کو جوبھی دیکھے گا وہ دیکھتا ہی رہ جائے گا۔مذکورہ مسجد 120سال پرانی بتائی جاتی ہے۔
سال2013ے فسادات کے دوران ایک گروہ مسجد کو شہید کرنے کے لئے اگے بڑھا تو رام ویر نے ڈٹ کر ان کا سامنا کیا۔ انہیں گاؤں والوں کا تعاون بھی ملا اور مسجد کو بچا لیاگیا۔اس کے بعد پیشہ سے مستری رام ویر اس کی دیکھ بھال کررہے ہیں۔
روز صبح وہ مسجد کی صفائی کرتے ہیں اور شام کو موم بتی لگاتے ہیں اور ہر رمضان سے قبل اس کی آہک پاشی بھی کرواتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہ کام ان کا مذہبی فریضہ ہے۔ ان کاکہنا ہے کہ ’’ میرا یقین مجھے سبھی پرارتھنا کی تمام مقامات کا احترام کرنے کے لئے کہتا ہے‘‘۔گاؤں میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ ضلع کلکٹریٹ سے چالیس کیلومیٹر کے فاصلے پر گاؤں ہے۔
یہاں پر کچھ دلت اور پسماندہ طبقات کے لوگ رہتے ہیں۔ رام ویر کے مطابق گاؤں میںآزادی سے پہلے مسلمانوں کی بڑی تعداد تھی۔ آہستہ آہستہ وہ چلے گئے۔ اب کبھی کبھی ہی کوئی نماز کے لئے آتا ہے۔
پڑویس کے گاؤ ں فیروز آباد میں رہنے والے خوش نصیب احمد بتاتے ہیں کہ’’ میں کچھ سال قبل اس گاؤں کو گیاتھااور یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ایک ہندوشخص مسجد کی دیکھ بھال کررہا ہے۔میں نے وہاں نماز ادا کی ۔نفرت کو ختم کرنے والے پریم اور ہم آہنگی کی کئی مثالیں موجودہیں‘‘۔
رام ویر مسجد سے محض سو میٹر کے فاصلے پررہتے ہیں ۔وہ بتاتے ہیں کہ بچپن میں انہوں نے مسجد کے آس پاس کھیلا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’ میرے لئے یہ پوجا کی جگہ ہے جس کا احترام ہونا چاہئے۔
اس کی دیکھ بھال کے لئے کوئی نہیں تھا‘ میں نے ذمہ داری لے لی۔ پچھلے پچیس سال سے میں روز اس کی صفائی کرتاہوں اور مرمت کا خیا ل رکھتا ہوں‘‘۔