ریالی کو ناکام بنانے ساری طاقت جھونک دی گئی

پروفیسر کودنڈارام کوپولیس نے گھر کا دروازہ توڑ کر گرفتار کیا، کئی مقامات پر جھڑپیں اور کشیدگی
عثمانیہ یونیورسٹی کیمپس میں طلباء کا احتجاج، سنگباری کے واقعات ،ایک طالب علم کا اقدام خود سوزی

آج تعلیمی ادارے بندرکھنے کی اپیل

حیدرآباد۔22فروری(سیاست نیوز) ریاستی حکومت کی جانب سے نوجوانوں کو روزگار اور ملازمتوں کی فراہمی میں ناکامی کے خلاف مجوزہ ریالی کے سبب دن بھر شہر کے کئی علاقوں میں صورتحال کشیدہ رہی اور نوجوانوں کی گرفتاریوں کے علاوہ چند مقامات پر پولیس سے احتجاجیوں کی جھڑپ کے واقعات رونما ہوئے۔تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی صدرنشین پروفیسر کودنڈا رام کو ان کے مکان واقع تارناکہ سے صبح کی اولین ساعتو ںمیں دروازہ توڑ کر گھر میں داخل ہوتے ہوئے پولیس نے گرفتار کرلیا تاکہ بے روزگار نوجوانوں کی مجوزہ ریالی کو ناکام بنایا جاسکے۔ پروفیسر کودنڈا رام کے ساتھ ساتھ جامعہ عثمانیہ سے زائد از 1000طلبہ کی گرفتاری پر صبح سے ہی یونیورسٹی اور باغ لنگم پلی میں پولیس کا بھاری بندوبست کیا گیا تھا اور لنگم پلی پہنچنے والے علاقوں کی ناکہ بندی کرتے ہوئے کسی کو اس راستہ پر جانے نہیں دیا جارہا تھا۔ پروفیسر کودنڈا رام کی گرفتاری کے خلاف عثمانیہ یونیورسٹی آرٹس کالج کے روبرو طلبہ کی بھاری تعداد نے احتجاجی مظاہرہ کیا جہاں پولیس کی بھاری جمیعت نے پہنچ کر مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔علاوہ ازیں صدرنشین جے اے سی کی گرفتاری کے خلاف نظام کالج طلبہ نے ہاسٹل کے قریب احتجاجی مظاہرہ کیا اور اس دوران طلبہ کی پولیس سے ہوئی جھڑپ اور پتھراؤ کے درمیان پولیس نے ہاسٹل میں گھس کر چند طلبہ کو حراست میں لے لیا۔ یونیورسٹی کیمپس میں پولیس کے داخلہ اور طلبہ کی گرفتاری کے خلاف سندیپ چمر صدر تلنگانہ اسٹوڈنٹس یونین نے جسم پر کیروسین چھڑک کر خودسوزی کی کوشش کی جنہیں پولیس نے فوری حراست میں لیتے ہوئے نلہ کنٹہ پولیس اسٹیشن منتقل کیا۔ تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی جانب سے مجوزہ احتجاجی ریالی کو پولیس نے اجازت نہ دیتے ہوئے رات دیر گئے 3:30 بجے پروفیسر کودنڈا رام کے گھر میں زبردستی داخل ہونے اور انہیں گرفتار کئے جانے کے بعد حالات ریاست کے تمام یونیورسٹیز میں کشیدہ ہو گئے اور پولیس کی جانب سے کی گئی ان کاروائیوں کے خلاف جامعہ عثمانیہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے 23فروری کو تعلیمی ادارہ جات کے بند کا اعلان کیاہے۔ 21اور 22 فروری کی درمیانی شب پروفیسر کودنڈا رام کے مکان پر ڈی سی پی ایسٹ زون ڈاکٹر وی رویندر اور ٹاسک فورس مسٹر لمبا ریڈی کی قیادت میں بھاری تعداد میں پولیس کی جمیعت پہنچ گئی اور دروازے توڑ کر مکان میں داخل ہوتے ہوئے انہیں حراست میں لے لیا اور پرانے شہر میں واقع کاماٹی پورہ پولیس اسٹیشن منتقل کردیا گیا ۔ گرفتاری کیلئے پولیس کے پہنچنے پر پروفیسر کودنڈا رام نے عہدیداروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر پولیس انہیں گرفتار کرنے کا ذہن بنا چکی ہے تو صبح 6بجے انہیں گرفتاری کیلئے آئے لیکن عہدیداروں نے ان سے بات چیت کے بجائے مکان کے اطراف موجود جے اے سی قائدین کو وہاں سے منتقل کرتے ہوئے دروازہ توڑ دیا اور انہیں حراست میں لے لیا گیا۔ صبح کی اولین ساعتوں سے ہی کاماٹی پورہ پولیس اسٹیشن پر عوام کے بڑھتے اژدہا م کو دیکھتے ہوئے ۔باغ لنگم پلی کے علاقہ کو پولیس چھاؤنی میں تبدیل کردیا گیا تھا اور دونوں شہروں کے پولیس عہدیدار باغ لنگم پلی اور جامعہ عثمانیہ میں انتظامات پر مصروف دیکھے گئے۔پروفیسر کودنڈا رام نے ان کی گرفتاری کو جمہوریت پر کاری ضرب قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت تلنگانہ نوجوانوں کے حقوق کو سلب کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔محکمہ پولیس کے عہدیداروں کے بموجب پولیس نے 800 سے زائد افراد کی گرفتاری کی توثیق کی ہے لیکن یہ نہیں بتایا جار ہا ہے کہ انہیں کن مقدمات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے ۔ پروفیسر کودنڈا رام کو زائد از 16گھنٹے حراست میں رکھنے کے بعد کاماٹی پورہ پولیس اسٹیشن سے سخت بندوبست کے درمیان ان کے مکان واقع تارناکہ منتقل کردیا گیا۔ پولیس اسٹیشن کاماٹی پورہ منتقلی کی اطلاع کے ساتھ ہی سابق رکن پارلیمنٹ مسٹر انجن کمار یادونے کاماٹی پورہ پولیس اسٹیشن پہنچ کر ان سے ملاقات کی کوشش کی لیکن انہیں روک دیا گیا جس پر مسٹر انجن کمار یادو نے پولیس اسٹیشن کے روبرو احتجاجی دھرنا منظم کیا اور سڑک پر لیٹ گئے

بعد ازاں جناب ایم اے خان رکن راجیہ سبھا کانگریس کاماٹی پورہ پولیس اسٹیشن پہنچے۔پولیس نے انجن کمار یادو‘ مسٹر ملو روی‘ مسٹر رویندر نائک سباق ارکان پارلیمان کے علاوہ سابق رکن اسمبلی وجئے راما راؤ اور سابق کارپوریٹر محمد غوث کو حراست میں لے لیا۔ پروفیسر کودنڈا رام کی اہلیہ نے الزام عائد کیا کہ ان کے شوہر کو پولیس نے اغواء کیا ہے کیونکہ گرفتاری کے متعلق واقف نہیں کروایا جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ پولیس کے ارادے ٹھیک نہیں ہیں۔ عثمانیہ یونیورسٹی طلبہ نے کودنڈا رام اور دیگر جے اے سی قائدین کے علاوہ طلبہ کی گرفتاری کو حکومت اور پولیس کے بدترین مظالم کی مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ علحدہ ریاست تلنگانہ کی تشکیل کے دوران ہوئے احتجاجی مظاہروں کے دوران آندھرا پردیش پولیس نے بھی کبھی ایسی روش اختیار نہیں کی تھی جو روش تلنگانہ پولیس کی جانب سے اختیار کی جا رہی ہے اور حکومت ان حالات پر خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ہوئے آندھرائی حکمرانوں سے بدتر سلوک اختیار کئے ہوئے ہے۔ تلنگانہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے عہدیداروں نے بتایا کہ ریاست میں جمہوری حکومت برقرار نہیں رہی بلکہ چیف منسٹر مسٹر کے چندر شیکھر راؤ آمریت چلا رہے ہیں اور ان کے طرز حکمرانی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز دبانے کی کوشش کرہے ہیں۔ ریاست تلنگانہ کے تمام اضلاع میں جوائنٹ ایکشن کمیٹی صدرنشین کی گرفتاری پر شدید برہمی کا اظہار کیا جانے لگا ہے۔ طلبہ کی جانب سے بند کے اعلان کو مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی تائید کی فراہمی کا اعلان کرتے ہوئے ریاست میں کے سی آر کی آمریت کے خلاف 23فروری کو تعلیمی اداروں میں بند منایا جائے گا اور بہت جلد طویل مدتی احتجاجی لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا۔