روہنگی پناہ گزین کا دل کو دہلادینے والا خلاصہ’میرے آنکھوں کے سامنے میری ہی دو لڑکیو ں کی عزت لوٹ کر گولی مار دیاگیا‘

کوکس بازار۔فوجی حملے کے بعد میانمار میں پچھلے اگست کے بعد سے اب تک تقریبا چھ لاکھ سے زائد لوگ نقل مقام کرنے کے لئے مجبور ہوگئے ہیں۔ اب وہ بنگلہ دیش کے کوکس بازار میں بنے بنیادی سہولتوں سے محروم پناہ گزین کیمپ میں مقیم ہیں۔ریاست کے راکھین میں اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بامبو‘ ترپولین اور مٹی کے اجنی شہر میں مقیم ہیں۔ایک پریشان حال روہنگی کسان نے کہاکہ ’’ میں نے اپنے دوبچے کھوئے اور دو بیٹیاں بھی۔

آدھی رات کے وقت میرے گھر میں فوج داخل ہوئی ‘ مگر اس سے قبل انہوں نے میرے آنکھوں کے سامنے میری بیٹیو ں کی عصمت لوٹی اور انہیں گولی مارکر ہلاک کردیا‘‘
دی وائیر نے مذکورہ کسان کے بیان کو کچھ اس طرح پیش کیا کہ’’ میرے پاس الفاظ ہیں کہ میں کس طرح میری آنکھوں کے سامنے بیٹیوں کی عزت لوٹتے ہوئے اور انہیں قتل کرتے ہوئے دیکھے منظر کو بیان کرسکوں۔ میرے دوبیٹوں کو بھی حکومت نے قتل کردیا۔

مجھے اپنے بیٹیو ں کی نعشیں بھی نہیں ملے ‘ یہ میرے لئے ایک بڑا غم ہے‘۔ دی وائیر نے رونان لی مصنف کے الفاظ کو پیش کرتے ہوئے’عینی شاہد نے مجھے بتایا کہ کس طرح جب تاتماداؤ( میانمار کی فوج) گاؤں میں داخل ہوئے ‘ فوجیوں نے اندھادھند فائیرنگ کرتے ہوئے لکڑیوں کے گھر وں میں رہنے والوں کو ہلاک کردیا‘ جوان مردوں کو گرفتار کیا‘ عورتوں کی عزت لوٹی ‘ تمام مکینوں سے کہاکہ چلے جائیں اور اور کے بعد گھروں کو نذر آتش کردیا تاکہ وہ دوبارہ گھروں میں داخل نہ ہوسکیں۔

میانمار کی ریاست راکھین میں میڈیااور انسانی حقوق کے اداروں کو داخلہ ممنوع ہے‘ جہاں پر زیادہ تر روہنگی ہی رہتے ہیں۔تاہم سٹلائٹ سے لے گئی کچھ تصوئیریں این جی او ہیومن رائٹس واچ کے لوگوں نے جاری کی جس میں روہنگیوں کے تین سو گاؤں کو نذر آتش کرتے ہوئے دیکھا گیا۔اس میں کچھ گاؤں بدھسٹ طبقے کے ردعمل کی وجہہ سے نذر آتش کی گئی ہیں۔

بنگلہ دیش کے کوکس بازار میں واقع پناہ گزین کیمپوں میں مقیم لوگوں کاڈاکٹرس علاج بھی کررہے ہیں جن میں معمر ‘ جوان مرد او ر عورتیں شامل ہیں۔مذکورہ لوگوں کے ہاتھ پیر میں گولیاں لگی ہیں ‘ یاپھر کئی حملوں میں زخمی لوگ شامل ہیں۔ ایک 20سال کے روہنگی نوجوان نے کہاکہ میں آپ سے درخواست کرتاہوں میں انسان بننا چاہتا ہوں‘انسان کی طرح جینا چاہتاہوں‘ مگر میانمار ہمارے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کررہا ہے۔ ہم وہا ں پر انسانوں کی طرح جانا چاہتے ہیں۔