روہنگیا مسلمانوں کا بحران، صرف انسانی امداد ناکافی، سیاسی حل بھی ضروری

میانمار میں فوجی کارروائی کے نام پر مسلمانوں کی نسل کشی، کئی گاؤں خالی، پناہ گزین کیمپوں میں 10 لاکھ افراد، المناک حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور
ریڈ کراس سوسائٹی کے صدر کی حقیقت بیانی

ڈھاکہ 3 جولائی (سیاست ڈاٹ کام) بین الاقوامی ریڈ کراس سوسائٹی کے سربراہ نے کہا ہے کہ روہنگیا پناہ گزینوں کا بحران حل کرنے کے لئے محض انسانی امداد کافی نہیں ہوگی بلکہ ان 700,000 افراد کو پائیدار راحت پہونچانے کے لئے سیاسی حل کی ضرورت ہے جو اپنی جان بچانے کے لئے میانمار میں اپنے خلاف ہونے والے تشدد سے بچنے کے لئے اُس ملک سے فرار ہوکر بنگلہ دیش میں پناہ لئے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ مائنمار میں گزشتہ سال اگسٹ کے دوران ایک تخریب کار حملے کے خلاف جوابی کارروائی کے طور پر روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مائنمار کی فوجی کارروائی دراصل نسل کشی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ ان پناہ گزینوں کی ملک واپسی کے لئے مائنمار اور بنگلہ دیش کے درمیان سمجھوتہ پر دستخط کئے گئے ہیں لیکن پناہ گزینوں کی شناخت کی توثیق، حفاظت و سلامتی اور دیگر تشویشناک وجوہات کے سبب سمجھوتہ پر عمل آوری غیریقینی ہے۔ بین الاقوامی ریڈ کراس سوسائٹی کے صدر پیٹر ماؤریر نے مائنمار کی ریاست راکھئین کا دورہ کیا جہاں کبھی یہ پناہ گزین رہا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں بنگلہ دیش کے ضلع کاکس بازار کے اُن کیمپوں کا بھی معائنہ کیا جہاں اب وہ مقیم ہیں۔ اُنھوں نے کہاکہ دونوں ہی مقامات پر روہنگیا مسلمان آلام و مصائب میں مبتلا ہیں۔ ماؤریر نے کہاکہ ’’مَیں اُن سے ملا جو ہنوز مقیم ہیں، اُن سے بھی ملا جو چلے گئے۔ اور یہ واضح ہے کہ یہ لوگ دونوں ہی طرف کرب و اضطراب آلام و مصائب کے شکار ہیں‘’۔ اُنھوں نے مزید کہاکہ ’’ان افراد کے لئے محفوظ امکنہ، برقی، بیت الخلائ، صحت، ادویات اور طبی دیکھ بھال جیسی سہولتوں کا فقدان ہے۔ روٹی کھانے کے لئے بھی ان افراد کے لئے بہت ہی کم مواقع ہیں۔ نیز اُنھیں ایسی آمدنی بھی میسر نہیں جس کے ہوتے ہوئے وہ امداد پر گذر بسر و ہنگامی حالات کی زندگی سے باہر نکل سکیں۔ ان کی واپسی کے لئے بھی انتہائی سخت شرائط مسلط کی گئی ہیں چنانچہ ان پناہ گزینوں کی گھر واپسی کے لئے حالات سازگار نہیں ہیں۔ بدھ مت کے ماننے والوں کے اکثریتی ملک مائنمار میں روہنگیا مسلمانوں کے تئیں نسل در نسل تعصب و امتیازی سلوک کا سلسلہ جاری ہے۔ ماوریر نے کہاکہ پناہ گزینوں کی واپسی کی صورت میں رکھئن میں ان کی نقل و حرکت کی آزادی، بنیادی خدمات تک دسترس، معاشی سرگرمیوں میں شمولیت کی آزادی، مارکٹوں میں رسائی کے علاوہ واپس ہونے والوں کے لئے کئے جانے والے قابل بھروسہ
سکیورٹی انتظامات سب سے بڑی اور نمایاں اہمیت کے حامل ہوں گے۔ ماوریر نے کہاکہ راکھئین کے اکثر گاؤں سے روہنگیا مسلمانوں کی آبادیاں ختم ہوچکی ہیں۔ کئی گاؤں خالی پڑے ہیں جبکہ بنگلہ دیش کے کیمپوں میں 10 لاکھ سے زائد پناہ گزین انتہائی مصیبت زدہ حالت میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔