حیدرآباد۔4۔ڈسمبر(سیاست نیوز) بھارتیہ جنتا پارٹی نے گجرات انتخابات میں راہول گاندھی کو کانگریس صدر بنائے جانے کے مسئلہ کو انتخابی مسئلہ کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا ہے اور بالواسطہ طور پرکانگریس کو مسلم سیاسی جماعت قراردینے کی کوشش کرتے ہوئے راہول گاندھی کی کانگریس صدارت کیلئے پرچۂ نامزدگی کو اورنگ زیب کی حکمرانی سے تعبیر کرتے ہوئے موروثی سیاست کا الزام عائد کیا جانے لگا ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے راہول گاندھی کو صدر بنائے جانے پر اس طرح کے ردعمل سے ثابت کردیا کہ گجرات انتخابات میں راہول گاندھی کی انتخابی مہم بھارتیہ جنتا پارٹی کے لئے نقصان کا سبب بننے لگی ہیں۔ نریندر مودی کی راہول گاندھی پر کی جانے والی تنقید سے گجرات کے رائے دہندوں میں یہ احساس پیدا ہونے لگا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی عوامی رجحان سے بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور آئندہ چند یوم کے دوران مزید دیوالیہ پن کا شکار بن سکتی ہے۔ گجرات انتخابات میں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی نے کانگریس کو گذشتہ 24 برسوں کے دوران ختم کرنے کی مکمل کوشش کر چکی تھی اب رائے دہندوں میں یہ احساس پیدا ہورہا ہے کہ اب گجرات بالخصوص احمدآباد میں کانگریس دوبارہ قدم جمائے گی۔ سیکولر رائے دہندوں کی تقسیم اور اکثریتی طبقہ کے رائے دہندوں میں خوف و دہشت پیدا کرنے کیلئے بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے کوششیں کی جارہی ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ریاست گجرات میں عوام نے بی جے پی کے ہتھکنڈوں کو سمجھتے ہوئے انہیں مسترد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے اسی لئے بی جے پی صدر امیت شاہ عوام کو اس بات سے بھی واقف کرو رہے ہیں کہ راہول گاندھی نے گجرات کی انتخابی مہم کے دوران کتنی منادر کا دورہ کیا اور اپنی زندگی میں وہ کتنی منادر کا دورہ کر چکے ہیں ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی بوکھلاہٹ کو سیاسی مبصرین امتحان سے قبل طلبہ میں پائی جانے والی تشویش کے مماثل قرار دے رہے ہیں اور کہا جا رہا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی انتخابی حکمت عملی پر راز کے پردے رکھتے ہوئے اس پر عمل آوری یقینی بنانے کے لئے کوشاں ہے لیکن احمدآباد میں جہاں 21 حلقہ جات اسمبلی موجود ہیں ان حلقوں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزراء کی نشستوں کو بھی خطرے میں قرار دیا جانے لگا ہے اور بی جے پی ان قیاس آرائیوں سے پریشان نظر آرہی ہے۔ گجرات اسمبلی انتخابات میں سوشل میڈیا کے رول کو اہمیت کا حامل بنانے کیلئے راست نریندر مودی کے ٹوئیٹر اکاؤنٹ کے ذریعہ انتخابی مہم چلائی جانے لگی ہے جس کے منفی اثرات کی توقع کانگریس کو ہے لیکن کانگریس کی جانب سے اس سلسلہ میں کوئی شکایت الیکشن کمیشن سے نہیں کی جا رہی ہے ۔ سابق کانگریسی قائد شنکرھ سنگھ واگھیلا جو کہ احمد پٹیل کے انتخاب کے دوران بھی باغی رہے تھے نے اب جس طرح کے بیانات دینے شروع کئے ہیں ان سے کانگریس کو نقصان کا خدشہ ہے لیکن کانگریس کی جانب سے شنکر سنگھ واگھیلا کے بیانات کو غیر اہم قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جو کہ کانگریس کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ شنکر سنگھ واگھیلا اور ان کے باغی ساتھیوںکے ذریعہ بھارتیہ جنتا پارٹی کانگریس کے ووٹ بینک کو تقسیم کرنے کی کوشش میں ہے لیکن گجرات انتخابات کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اس طرح کی کوششیں اکثر ناکام ثابت ہوئی ہیں جس کی مثال گذشتہ اسمبلی انتخابات میں سابق چیف منسٹر گجرات کیشو بھائی پٹیل کا انتخابات میں حصہ لینا اور رائے دہی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرنے میں ناکامی ہے۔ کیشو بھائی پٹیل گجرات کے قدآور قائدین میں شمار کئے جاتے تھے لیکن گذشتہ انتخابات میں حصہ لینے کے بعد ان کی حیثیت کا اندازہ ہوگیا اور شنکر سنگھ واگھیلا کے متعلق بھی کانگریس قائدین کا کہنا ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد شنکر سنگھ واگھیلا بھی اپنی سیاسی شناخت ختم کرلیں گے اسی لئے ان کے خلاف کانگریس نے خاموش رہنے کی حکمت عملی اختیار کر رکھی ہے۔ اترپردیش بلدیاتی انتخابات کے نتائج سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کو اب اس بات کا احساس ہونے لگا ہے کہ گجرات انتخابات کو جب تک مذہبی رنگ نہ دیا جائے اس وقت تک گجرات میں حکومت کو بچانا مشکل نہیں بلکہ ناممکن ہو چکا ہے اسی لئے از سرنو فتوی سیاست پر بی جے پی اعلی قیادت اتر آئی ہے اورمسلم و عیسائی مذہبی رہنمائوں کے بیانات کے حوالے دیتے ہوئے یہ تاثر دیا جانے لگا ہے کہ اقلیتیں متحد ہونے لگی ہیں اسی لئے اکثریتی طبقہ کو بھی اپنے اتحاد کا مظاہرہ کرنا چاہئے ۔ راہول گاندھی کو صدر کانگریس بنائے جانے کے مسئلہ پر بھی نریندر مودی کا تبصرہ بالواسطہ طور پر مخالف مسلم رہا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ زعفرانی قوتیں ہندستان کی تاریخ بالخصوص مغلیہ دور حکومت سے جس قدر نفرت کرتی ہیں بھارتیہ جنتا پارٹی ان کی حمایت کر رہی ہے ۔ کانگریس پر مغلیہ طرز قیادت کا الزام عائد کرتے ہوئے یہ باور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ کانگریس مسلم پرست سیاسی جماعت ہے جبکہ یہ الزام حقیقت سے بعید ہے۔