انٹلی جنس بیورو کی رپورٹ پر حکومت کا فیصلہ
نئی دہلی 27 اگسٹ (سیاست ڈاٹ کام) باور کیا جاتا ہے کہ مرکزی حکومت نے اسلامی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائک کے خلاف دہشت گردی کا کیس درج کرنے کے لئے تیاری کرلی ہے جنھیں دہشت گردی سے متعلق کیسوں میں ماخوذ 50 افراد کو اُکسانے کا مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے اور یہ امکان ہے کہ ان کے ادارہ اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کو غیر قانونی قرار دیا جائے گا۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ ذاکر نائک کے خلاف دو رخی ایکشن پلان بنایا گیا ہے جن پر حالیہ ڈھاکہ ریسٹورنٹ پر حملہ کرنے والوں کو اُکسانے کا الزام ہے۔ ان کی تقاریر کا تجزیہ کیا جارہا ہے کہ وہ کونسی باتیں ہیں جس سے نوجوانوں کو عسکریت پسندی کی سمت مائل ہونے کے لئے ترغیب ملتی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ وزارت داخلہ نے قانونی ماہرین کی رائے سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ذاکر نائک کے خلاف قانون انسداد غیر قانونی سرگرمیاں (UAPA) کے تحت کیس درج کیا جائے ۔ جبکہ حکومت مہاراشٹرا نے تحقیقات میں یہ پایا کہ ان کی تقاریر میں جہاد کی تعلیمات دی جاتی ہے۔ ذاکر نائک کے خلاف دہشت گردی کے الزامات سابق میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث افراد کے بیانات کی بنیاد پر عائد کئے جاسکتے ہیں۔ جن میں آئی آر ایف کے سابق ملازم فیروز دیشمکھ (انھیں 2006 ء میں اورنگ آباد اسلحہ کیس میں مشتبہ رول پر گرفتار کیا گیا تھا)، قتیل احمد صدیقی، انڈین مجاہدین کے رکن اور آئی ایس آئی کارندہ (جون 2012 ء میں پونے کے ایرواڑہ جیل میں قتل کردیا گیا تھا)، افشاں جبین (متحدہ عرب امارات سے واپس بھیج دینے پر سپٹمبر 2015 ء کو گرفتار کرلیا گیا تھا) اور مدبر شیخ محمد عبیداللہ خان، ا بو انس اور محمد نفیس خاں (جنھیں داعش سے ملحقہ تنظیم جنود الخلیفہ قائم کرنے پر این آئی اے کے دھاوؤں میں گرفتار کرلیا گیا تھا) شامل ہیں۔ علاوہ ازیں عوامی تقاریر کے ذریعہ مذہبی منافرت پھیلانے کی بنیاد پر اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے خلاف امتناع عائد کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ حال ہی میں کیرالا کے 17 نوجوان افغانستان فرار ہوکر آئی ایس آئی ایس میں شامل ہوگئے ہیں انھیں آئی آر ایف ارکان نے ممبئی طلب کرکے تبدیلی مذہب کے لئے مجبور کیا تھا۔ باوثوق ذرائع نے بتایا کہ انٹلی جنس بیورو نے ڈاکٹر نائک کی اشتعال انگیز تقاریر کی ایک فہرست وزارت داخلہ کو پیش کردی ہے جس پر کارروائی کے لئے این آئی اے کے حوالے کردی گئی ہے۔