دہلی ماب لنچنگ : دفعہ ۳۰۴؍ نہیں بلکہ ۳۰۲ ؍ کا مقدمہ درج ہونا چاہئے : جسٹس سہیل اعجاز صدیقی

نئی دہلی : سپریم کورٹ کی سخت ہدایت کی باوجود ہجومی تشدد کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اب یہ سلسلہ قومی راجدھانی دہلی تک پہنچ گئی ہے ۔تھانہ بلسوا ڈیری کے مکند پور میں جس بے رحمی کے ساتھ ایک سولہ سالہ مسلم نوجوان کو پیٹ پیٹ کر ہلا ک کردیاگیا ہے۔ اس واقعہ پر کارروائی کرنے کے باوجود پولیس اس تمام معاملہ کی پردہ پوشی کررہی ہے۔ او رہجومی تشدد میں ملوث اشخاص کو بچانے کے لئے پولیس دفعہ ۳۰۲؍ کے بجائے ۳۰۴درج کررہی ہے ۔

قومی کمیشن برائے اقلیتی ادارہ جات کے سابق چیر مین جسٹس سہیل اعجاز صدیقی ، ایڈوکیٹ سپریم کورٹ کے فیضان، جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی بھی اس مسئلہ پر نظر مرکوز کئے ہوئے ہیں اور پولیس کی کارروائی کا جائزہ لے رہی ہے ۔ جسٹس سہیل صدیقی نے کہا کہ چوری کا معاملہ ہو یا کوئی اور معاملہ کسی کوبھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے ۔

انہوں نے کہا کہ حال ہی میں ابھی سپریمکورٹ نے ہجومی تشدد کے معاملہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو ہجومی تشدد پر قابو پانے کی ہدایت جاری کی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کی اس ہدایت کی باوجود ۱۶؍ سال کے ایک نابالغ لڑکے کا قتل کردیا گیا ہے جو تشویشناک بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اس تمام معاملہ پر پردہ ڈالنے کی کوشش کررہی ہے ۔

جسٹس صدیقی نے کہا کہ چوری کے الزام میں بھی اگر لوگوں نے پیٹ پیٹ کر قتل کیا ے تو بھی یہ ۳۰۴؍ کا مقدمہ نہیں بلکہ ۳۰۲ کا مقدمہ بنتا ہے ۔کیونکہ کسی کوبھی قانون ہاتھ میں لینے کا اجازت نہیں ہے۔انہوں نے کہا کہ پولیس ۳۰۲؍ کے معاملہ کو تحلیل کرناچاہتی ہے ۔

چنانچہ ایسے حالات میں عوام کو چاہئے کہ وہ سپریم کورٹ جائیں اور چیف جسٹس کو صرف ایک درخواست دیں ۔ انہوں نے کہا کہ مفادعامہ میں بھی یہ درخواست دی جاسکتی ہے او راس میں کہاجاسکتا ہے کہ پولیس ملزمان کو بچانے کا کام کررہی ہے ۔