دونوں ہاتھوں سے تحریر اور 5زبانوں پر عبور

مدھیہ پردیش کے ایک اسکولی بچوںکا کارنامہ ‘کئی ممالک کی مبارکباد
بھوپال۔22اپریل ( سیاست ڈاٹ کام ) سنگرولی ضلع مدھیہ پردیش کے ایک گاؤں کا اسکول اپنی ایک مخصوص انفرادیت کا حامل ہے ۔ اس اسکول میں تقریباً 171 طالب علم جس میں زیادہ تر ہریجن اور قبائیلی لڑکے شامل ہیں ‘ اپنی ایک انفرادی خصوصیت کیلئے جانا جاتا ہے ۔ یہ اسکولی بچے نہ صرف اپنے دونوں ہاتھوں سے تحریر کرتے ہیں بلکہ جملہ پانچ زبانوں بشمول ہسپانوی زبان پر عبور حاصل ہے ۔ اس اسکول کا نام ’’ وینا وندنی اسکول ‘‘ کی بنیاد ایک فوجی بی پی شرما نے 8جولائی 1999ء کو قیام عمل میں لایا ۔ یہ اسکول بودھیلا گاؤں جو سنگرولی سے 15 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے ۔ یہ اسکول اچانک ہی سرخیوں میں اس وقت نمودار ہوا جب یوٹیوب پر تقریباً 1.65لاکھ لوگوں نے اس کا مشاہدہ کیا اور واٹس اپ پر بھی اس کا خوب چرچا ہوا ۔ دنیا کے مشہور محققین نے نہ صرف اسکول پرنسپل کو کال کر کے نہ صرف سراہنا کی بلکہ مختلف ممالک کے محقق جیسے شمالی کوریا ‘ جرمنی اور امریکہ نے اس اسکول کا شخصی طور پر مشاہدہ کر کے مسٹر شرما کو مبارکبادی بھی دی ۔اس اسکول کی خاص بات یہ ہے کہ تمام طالب علموں کا تعلق نئی نسل ہی ہے جس کے ماں باپ کو اپنا نام اور دستخط بھی کرنی نہیں آتی لیکن ان کے بچے نہ صرف دو ہاتھ سے لکھنے میں ماہر ہیں بلکہ تیز تحریر کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ مسابقت کیلئے چیلنج بھی کرتے ہیں ۔

اس اسکول کے دورہ کے بعد یہ مشاہدہ سامنے آیا ہے کہ صرف ایک فیصد بچے ہی پیدائشی طور پر اپنے دونوں ہاتھ سے لکھنے کے ماہر ہوتے ہیں اور بقیہ اپنی ذاتی محنت اور قابلیت سے یہ فن حاصل کرتے ہیں ۔ مسٹر شرما نے گونڈ قبیلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حالانکہ یہ قبیلہ غیر تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود ان کے اولاد ہسپانوی اور اردو دونوں زبانوں پر یکساں عبور رکھتے ہیں ۔ مسٹر شرما نے کاہ کہ ان کے اسکول میں تقریباً 171 طلبہ شریک ہیں اور تمام طالب علم اپنے دونوں ہاتھ سے تحریر کرسکتے ہیں ۔ یہاں تک کہ نئے طالب علم بھی جو حال ہی میں داخلہ لئے ہیں وہ بھی اس فن میں اتنے ہی ماہر ہیں جتنے کہ قدیم طلبہ اس اسکول میں ‘ طلبہ کو پانچ زبانیں پڑھائی جاتی ہیں جسس میں ہندی ‘ انگریزی ‘ سنسکرت ‘ اردو کے ساتھ ایک یوروپی زبان ہسپانوی پڑھائی جاتی ہے ۔ اردو زبان کی تعلیم رومن رسم الخط میں دی جاتی ہے ۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ وہ کس بات سے متاثر ہوکر اس اسکول کی بنیاد ڈالی تو انہو ںنے کہا کہ ایک دفعہ جب وہ اپنے آرمی کیمپ سے چھٹی پر گھر واپس آرہے تھے تو دوران سفر بس میں ان کے زیر مطالعہ ایک رسالہ تھا جس میں لکھا تھا کہ ہمارے اول صدر مسٹر راجندر پرساد اپنے دونوں ہاتھوں سے لکھنے کے ماہر تھے ۔ چنانچہ اس اسکول کی بنیاد دراصل اس تحریر کو پڑھنے کے بعد حوصلہ افزائی کا باعث بنا ۔ مسٹر شرما نے کہا کہ میرے آبائی گاؤں میں ‘میں نے اسکول کی بنیاد ڈالی اور بچوں کو اپنے دونوں ہاتھوں سے تحریر کرنے کی مشق کروائی ۔ اسکول ابھی صرف آٹھویں درجہ تک ہی ہے اور سب بچے دوسرے اسکول میں آگے کی تعلیم کیلئے داخلہ لیتے ہیں تو لوگ ان کے فن کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں ۔ وینا وندنی اسکول پہلے بیاچ کا لڑکا جس کا نام دلیپ ہے ٹائمز آف انڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کا تعلق پہلے بیاچ سے ہے جس میں صرف چھ طالب علم ہی تھے اور پتہ نہیں اس کے تمام ساتھی جو اپنے دونوں ہاتھ سے گحریر کرتے تھے کہاں ہے لیکن وہ فخر سے کہنے لگا کہ وہ نہ صرف اپنے دونوں ہاتھ سے تحریر کرسکتا ہے بلکہ پانچ زبانوں پر عبور پر بے پناہ ہمت افزائی محسوس کرتا ہے اور اس نے یہ بھی کہا کہ اس کا یہ فن اس کے X & XI کے امتحانات بیحد معاون اور کارکرد ثابت ہوا جس میں وہ اپنے ساتھیوں سے پہلے ہی اپنا امتحان ختم کردیتا تھا کیونکہ وہ دوران تحریر اپنے دونوں ہاتھوں کو یکساں طور پر استعمال کرتا تھا ۔