دواخانہ عثمانیہ کی قدیم عمارت کے انہدام کی تجویز پر عوام کی برہمی

از سر نو آہک پاشی اور تحفظ کے اقدامات پر زور ، ٹی آر ایس کے وعدے فراموش
گنبدان قطب شاہی کی طرح عثمانیہ کو سنبھالیے !

حیدرآباد۔23 جولائی (سیاست نیوز) حکومت تلنگانہ کی جانب سے دواخانہ عثمانیہ کی قدیم عمارت کے انہدام سے متعلق کی جارہی منصوبہ بندی پر عوام میں شدید برہمی پائی جاتی ہے۔ کیوں کہ عوام بالخصوص آثار قدیمہ کے تحفظ کے لئے جدوجہد کررہی تنظیموں کا یہ احساس ہے کہ جب ماہ لقا بائی چندا کے مقبرہ اور سات گنبد کی ازسر نو آہک پاشی اور اس کے تحفظ کے اقدامات کو ممکن بنایا جاسکتا ہے تو عثمانیہ ہاسپٹل کی حفاظت بھی یقینی بنائی جاسکتی ہے۔ حکومت تلنگانہ نے عثمانیہ ہاسپٹل کی عمارت کو منہدم کرنے کے متعلق غور و خوض کا سلسلہ شروع کیا ہے جبکہ ٹی آر ایس نے اقتدار میں آنے سے قبل حیدرآباد کے آثار قدیمہ کے تحفظ کا وعدہ کیا تھا لیکن اقتدار حاصل ہونے کے بعد شاید یہ وعدے فراموش کئے جانے لگے ہیں۔ عثمانیہ دواخانہ جو کہ آثار قدیمہ کے اثاثوں کی فہرست میں شامل عمارت ہے اس کے منہدم کیئے جانے سے حیدرآباد کی شناخت کو نقصان پہنچانے کے مترادف ثابت ہوگا۔ انٹاک نامی تنظیم جوکہ آثار قدیمہ کے تحفظ کے لئے سرگرداں ہے کی ذمہ دار انورادھا ریڈی نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یہ خود شہریان حیدرآباد و تلنگانہ کی بدنامی کے مترادف ہوگا۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت کے اس اقدام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حیدرآبادیوں نے آندھرا والوں سے جو کچھ بچایا تھا اسے تلنگانہ والے ختم کرنے کا منصوبہ تیار کررہے ہیں۔ مسرز انورادھا ریڈی نے بتایا کہ فوری طور پر قطعی فیصلوں کے بجائے عمارت کی موجودہ حالت پر قطعی رپورٹ طلب کی جائے اور اس بات کا جائزہ لیا جائے کہ اس تاریخی عمارت کے تحفظ کو کیسے یقینی بنایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 1956ء میں حیدرآباد کی تقسیم کے ذریعہ حیدرآبادیوں کی شناخت پر ایک کاری ضرب حیدرآبادیوں کی مرضی کے بغیر لگائی گئی تھی جس کے نتائج آج تک بھگت رہے ہیں اور اب تاریخی اثاثوں کے انہدام پر بھی خاموشی اختیار کی جاتی ہے تو ایسی صورت میں عوام کو مزید نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ حکومت تلنگانہ نے فی الحال جن رپورٹس کی بنیاد پر دواخانے کے انہدام کے متعلق جائزہ لینا شروع کیا ہے، ان رپورٹس کی بنیاد پر عمارت کی تباہی کی کھلی چھوٹ نہیں دی جاسکتی۔ شہر حیدرآباد میں آثار قدیمہ کے تحت موجود عمارتوں کی ملکیت حیدرآبادیوں کی ہے اور جب تک شہریان حیدرآباد سے رضامندی حاصل نہیں کی جاتی اس وقت تک شہر کے تاریخی اثاثہ سے چھیڑ چھاڑ حکومت کے حق میں بہتر ثابت نہیں ہوگی۔