حصول اراضیات بل گرما گرم مباحث کے بعد منظور

اپوزیشن پر ترقیاتی پراجکٹس میں رکاوٹ ڈالنے کا الزام، معقول معاوضہ دیا جائے گا: ہریش راؤ

حیدرآباد۔/28ڈسمبر، ( سیاست نیوز) حصول اراضیات بل کو آج تلنگانہ اسمبلی میں گرما گرم مباحث کے بعد منظوری حاصل ہوگئی۔ مرکزی حصول اراضیات قانون 2013 میں ترمیم اور نیا قانون کے مسئلہ پر تنازعہ پیدا ہونے کے بعد حکومت تلنگانہ نے اس کو نیا قانون قرار دیتے ہوئے بل منظور کرالیا۔ کانگریس نے حکومت کے رویہ کو اسمبلی کا یوم سیاہ اور جمہوریت کا قتل قرار دیا ۔ تلگودیشم نے ریاست تشکیل دینے سے قبل بل کی تیاری کا الزام عائد کرتے ہوئے اس کو غیر قانونی قرار دیا۔ چیف منسٹر تلنگانہ کے سی آر نے اپوزیشن پر ریاست کی ترقیات بالخصوص آبپاشی پراجکٹس کی تعمیرات میں رکاوٹ پیدا کرنے اور احتجاج کرتے ہوئے راحت کاری کے معاملہ میں کسانوں اور متاثرین کو نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا۔ چیف منسٹر کے سی ار اور ریاستی وزیر ہریش راؤ نے اپوزیشن کے شکوک و شبہات پر وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کے دور حکومت میں مرکزی حکومت نے 2013 کے دوران حصول اراضیات کیلئے جو قانون سازی کی تھی اس میں کئی خامیاں ہیں جس سے تلنگانہ کے کسانوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ دستور ہند نے جو اختیارات دیئے اس کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے آرٹیکل 254کے تحت تلنگانہ کیلئے حصول اراضیات کا نیا قانون تیار کیا گیا ہے۔ ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی سے مشاورت کرنے کے بعد ہی ان کے مشورے سے یہ قانون سازی کی جارہی ہے۔ ملک کے مختلف ریاستوں راجستھان، مدھیہ پردیش، تاملناڈو کے علاوہ دوسری ریاستوں نے بھی اس طرح کی قانون سازی کی ہے۔ تلنگانہ حکومت کا جاری کردہ جی او 123 مرکزی حکومت کے قانون سے 10 گنا بہتر ہے۔ اپوزیشن جماعتیں غیر ضروری واویلا مچاتے ہوئے عوام میں غلط پیغام پہنچارہی ہیں۔ حکومت کے جی اوز کو عدلیہ میں چیلنج کرتے ہوئے پراجکٹس کی تعمیرات میں رکاوٹ پیدا کررہے ہیں۔

چیف منسٹر نے کہا کہ ملنا ساگر میں سی پی ایم اور غیر سماجی عناصر کی سرگرمیوں کے باعث انہوں نے کرفیو نافذ کرنے کا پولیس کو حکم دیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اب کوئی پراجکٹ تعمیر کیا جاتا ہے تو تھوڑے لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے مگر ساری ریاست کیلئے یہ اثاثہ ثابت ہوتا ہے۔ اراضیات سے محروم ہونے کا درد کیا ہوتا ہے انہیں اچھی طرح معلوم ہے۔ نظام کے دور حکومت میں تعمیر کردہ اپر مانیر پراجکٹ کے وقت ان کے والد کی سینکڑوں ایکر اراضی پراجکٹ میں چلی گئی، ان کے والد نے 1943 میں عبدالباری ایڈوکیٹ کی خدمات حاصل کرتے ہوئے قانونی جنگ کی اور کامیاب ہوئے۔ آندھرا پردیش کی تاریخ میں اراضیات سے محروم ہونے والے کسانوں کو اتنا معاوضہ نہیں دیا گیا جتنا وہ دے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کا قانون حصول اراضیات 2013 کوئی ہیرے جواہرات نہیں ہے۔ قائد اپوزیشن کے جانا ریڈی نے کہا کہ مرکزی حکومت کے قانون میں ترمیم کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اگر کوئی ترمیم کی گئی تو وہ عدلیہ میں برقرار بھی نہیں رہ پائے گی۔ حکومت نیا قانون تیار کرے تو اپوزیشن اس کی تائید کرنے کیلئے تیار ہے۔ تلگودیشم کے رکن اسمبلی ریونت ریڈی نے اس کو اسمبلی کا یوم سیاہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ حکومت تلنگانہ کے قانون کی تلگودیشم مخالفت کرتی ہے۔ مرکزی قانون میں ترمیم کرنے کا ریاست کو کوئی اختیار نہیں ہے۔ جی اوز کے ذریعہ غریبوں کی اراضی حاصل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مرکزی حکومت نے تو قانون سازی کی ہے۔ اس سے ہی کسانوں کو فائدہ ہوگا۔ یکم جنوری 2014 کو تلنگانہ ریاست تشکیل پائی تاہم یکم جنوری 2014 سے عمل ہونے والے قانون کو کیسے تیار کیا جاسکتا ہے۔