نئی دہلی ، 25 فبروری (سیاست ڈاٹ کام) جے این یو کے طلباء عمر خالد اور انیربن بھٹاچاریہ جنھیں غداری کے کیس میں گرفتار کیا گیا ہے، اُن سے پوچھ تاچھ کرنے والے عہدیداروں کو سخت مشکل کا سامنا ہورہا ہے کیونکہ اول الذکر نے کوئی بھی نعرہ بازی میں ملوث رہنے کی تردید کردی ہے جبکہ آخرالذکر اُن نعروں کے ’’مخالف قوم‘‘ ہونے کے جواز کو چیلنج کررہا ہے۔ دہلی پولیس نے آج خالد اور انیربن سے اپنی پوچھ تاچھ جاری رکھی لیکن اس کیس کی تبدیلیوں کے تعلق سے بدستور خاموشی اختیار کررکھی ہے اور ہائی کورٹ کے احکام کا حوالہ دیا کہ نہایت رازداری برتی جائے۔ یہ دونوں طلباء تین دیگر اسٹوڈنٹس کے ساتھ جنھوں نے پولیس کو مشکل میں ڈالے رکھا جبکہ زائد از 10 یوم کئی شہروں میں اُن کی تلاش ہوتی رہی، وہ منگل کو رات دیر گئے یونیورسٹی کے کیمپس میں پھر سے نمودار ہوئے۔ اس کے بعد خالد اور انیربن نے پولیس کے آگے خودسپردگی اختیار کرلی۔ پولیس کو صدر جے این یو اسٹوڈنٹس یونین کنہیا کمار کی پیشی وارنٹ کا انتظار بھی ہے، جو عدالتی تحویل میں ہے، تاکہ یہ تینوں طلباء سے بہ یک وقت پوچھ تاچھ کی جاسکے۔ پولیس کے ذریعہ نے کہا کہ عمر اور انیربن سے موجودہ طور پر اے سی پی رتبہ کے عہدیداروں کی زیرقیادت دو علحدہ ٹیمیں پوچھ تاچھ کررہی ہیں۔
وکلاء کیخلاف عرضی کی آج سپریم کورٹ میں سماعت
دریں اثناء سپریم کورٹ نے آج اتفاق کرلیا کہ تین وکلاء کے خلاف تحقیر عدالت کی کارروائی چاہتے ہوئے داخل کردہ عرضی کی کل سماعت کرے گی۔ یہ وکلاء مبینہ طور پر ایسی شیخی بگھارتے ہوئے کیمرے میں قید ہوئے کہ انھوں نے ایک کورٹ کامپلکس میں صدر جے این یو ایس یو کنہیا کمار اور دیگر بشمول جرنلسٹوں کو زدوکوب کیا۔ چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر اور جسٹس یو یو للت پر مشتمل ایک بنچ نے کہا کہ کل اس عرضی کو متعلقہ بنچ کے روبرو پیش کیا جائے، جبکہ وکیل پرشانت بھوشن نے اس معاملہ پر عاجلانہ سماعت چاہی ، جسے ایک اور ایڈوکیٹ کامنی جیسوال نے اس مسئلہ پر داخل کیا ہے۔ بھوشن نے کہا کہ اس عرضی کی فوری سماعت ہونی چاہئے۔