جناح پر گنا کی جیت‘ بی جے پی کو کیرانہ میں شکست کا سامنا

کیرانا۔ مغربی اترپردیش کے لوک سبھا حلقہ کیرانا کے ضمنی الیکشن میں اصل موضوع تھا ’گنا‘ مگر بی جے پی نے اس اصلی موضوع کو چھوڑ کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں لٹکی بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصوئیر کو موضوع بحث لاکر کسانوں کو مذہبی خطوط پر بانٹنے کی کوشش کی ۔

اے این ائی سے بات کرتے ہوئے آر ایل ڈی لیڈر جینت چودھری نے کہاکہ ’’ جناح ہارا اور گناجیتا‘ ہم تمام پارٹیوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں جنھوں نے ہماری مدد کی ہے‘ اکھیلیش جی ‘ مایاوتی جی‘ راہول جی‘ سونیا جی‘ سی پی ائی ایم ‘ عآپ اور دیگر پارٹیوں کا شکریہ۔ جناح ہارا ‘ گناجنتا‘‘

سیاسی اور فرقہ وارانہ نوعیت کے حساس کیرانہ لوک سبھا میں16لاکھ ووٹرس بشمول5.5لاکھ مسلم ووٹرس ‘2.5لاکھ دلت اور1.5لاکھ جاٹ ووٹرس ہیں اور بی جے پی کے لئے کیرانہ پر جیت حاصل کرنا وقار کا معاملہ بن گیاتھا۔

دونوں سماج کے لئے جو2013سے قبل پورے بھائی چارہ سے ایک ساتھ رہتے تھے‘ ستمبر میں پیش ائے مظفر نگر فسادات نے یہاں کے حالات کو ہی بدل کر رکھ دیا۔

مگر اس کے باوجوداپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر جاٹ اور مسلمان ایک ہوئی تاکہ بھگوا پارٹی کو بیدخل کیاجاسکے۔

ڈسمبر کے بعد سے شوگر میل کی جانب سے بقایہ جات کی عدم ادائی پربے حال کسانوں کو کوئی فرق نہیں پڑرہاتھا کہ الیکشن لڑنے والے امیدوار کا مذہب کیا ہے مگر بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) انہیں پولرائز کرنے کی کوشش ضرور کررہی تھی۔

گورکھپور اور پھلپور کے ضمنی انتخابات کے بعد کیرانہ الیکشن میں بی جے پی کی شرمناک شکست اترپردیش میں پارٹی کی گرتی ساکھ کی ایک مثال ہے۔

سال2014کے بعد ریاست اترپردیش میں کیرانہ ضمنی الیکشن چوتھا لوک سبھا بائی پول تھا جو ایک طرف اپوزیشن( کانگریس‘ بی ایس پی اور ایس پی) کے اتحاد کا امتحان ہے جو بھگوا پارٹی کو بیدخل کرنے کے لئے ساتھ ائے ہیں۔

فبروری میں بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ حکم سنگھ کی موت کے بعد سے کیرانہ لوک سبھا سیٹ خالی تھی۔ بی جے پی نے حکم سنگھ کی بیٹی مارینگا سنگھ کو پارٹی امیدوار بنایا جس کے مقابلے میں آر ایل ڈی سے تبسم حسن امیدوار تھیں۔

مزے دار بات یہ ہے کہ تبسم جو سابق رکن اسمبلی ہیں اس جیت کے بعد 2014لوک سبھا میں اترپردیش سے واحد مسلم نمائندہ بنی ہیں‘ اترپردیش سے کوئی بھی مسلم امیدوار لوک سبھا کے لئے منتخب نہیں ہوا تھا۔