جموں کشمیر میں ایک بڑا سیاسی طوفان اٹھا اور پھر امن وشانتی ہوگئی۔ اسکا ایک نتیجہ یہ نکلا کے ریاست میں اسمبلی تحلیل ہوگئی ۔ لیکن اس کی کچھ پوشیدہ نتائج بھی ہونگے ۔ جوبعد میں نظر ائیں گے۔
بتادیں کہ چہارشنبہ کے روز پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے سوشیل میڈیا پر ایک مکتوب پوسٹ کرتے ہوئے56اراکین اسمبلی کی تائید کا دعوی کیااور کہاکہ کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے ساتھ ملاکر حکومت بنانے کے لئے انہوں نے راج بھون کو ایک مکتوب رو انہ کردیا ہے۔
اس مکتوب کے سامنے آتی ہے پیپلزکانفرنس کے چیرمن سجاد غنی لون نے بھی گورنر کو بی جے پی کے حمایت سے حکومت تشکیل دینے کا اپنا دعوی کا مکتوب بھیج دیا۔
انہوں نے کہاکہ بی جے پی میں25اراکین اسمبلی کے علاوہ دیگر تنظیموں کے 18اراکین اسمبلی بھی حمایت کررہے ہیں‘ گورنر جب بھی کہیں ان سب کے ساتھ وہ گورنر کے روبرو پیش ہوجائیں گے۔
لیکن گورنر نے دونوں فریقین کے دعوؤں کو ایک طرف رکھ کر اسمبلی کو تحلیل کردیا۔بعدمیں راج بھون سے جاری بیان میں اسمبلی تحلیل کرنے کی وجہہ یہی بتائی گئی کہ الگ الگ نظریات والی سیاسی پارٹیوں کے ایک ساتھ آنے سے مستحکم حکومت کی تشکیل ممکن نہیں ہے۔
یہ بھی کہ ان میں کچھ پارٹیوں نے اسمبلی تحلیل کرنے کی مانگ کررہی تھی‘ لہذا ان کے ساتھ آنے کا واحد مقصد ایک ذمہ دار حکومت کے بجائے اقتدار حاصل کرنا ہے۔
بیان میںیہ بھی کہاگیا ہے کہ اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل کرنے کے لئے مذکورہ پارٹیوں نے ہارس ٹریڈنگ کا بھی سہارا لیاتھاجس کی جانکاری گورنر کو بھی ملی تھی۔یہ سرکاری دلیلیں اپنی جگہ ‘ لیکن اسمبلی اور روایت کے تقاضہ یہی تھی کہ گورنر سب سے بڑے اتحاد کی حکومت بنانے کے لئے مدعو کرتے اور اس کو ایوان میں جلد از جلد اپنی اکثریت ثابت کرنے کو کہتے ۔مگر ایسا کرنا انہیں خود کو شک کے دائرے میں دال دیا ہے۔
سپریم کورٹ کا کیایہ معاملہ ہائی کور ٹ میں گیا تو بھی زیادہ ممکن ہے کہ وہاں اسے پلٹ دیاجائے گا۔ خیر وہ تو تب کی بات ہے جب کوئی عدالت جائے ۔ ابھی تو سب سے ضروری یہ ہے کہ ریاست میں کسی قسم کی تشویش اور ہلچل دیکھائی نہ دے۔
سال2014کے بعد سے ہی ریاست بالخصوص وادی میں سیاسی سرگرمیاں مانو پوری طرح ٹھپ ہوکر رہ گئی ہیں۔ سال2017میں شری نگر او راننت ناگ کے دو لوک سبھا سیٹوں پر چناؤ ہونے تھے ۔ شری نگر کی سیٹ پر کسی طرح الیکشن کرایاگیا ‘ لیکن اننت ناگ کی سیٹ آج بھی خالی ہے۔
جموں کشمیر کے دستور کے مطابق چھ ماہ سے زیادہ صدر راج یہاں پر نافذ نہیں کیاجاسکتا ۔ ایسے میں 19ڈسمبر سے وہاں مرکز کو سیدھے حکومت کی باگ ڈور سنبھالنی ہوگی۔ مقامی لوگوں کو سرگرم سیاست میں شامل کئے بغیر حالات کو قابو میں لانا مشکل ہے‘ لہذا ریاست میں جلد ازجلد لوک سبھا کے ساتھ مقامی الیکشن کرائے جانے چاہئے۔