جموں اور کشمیر میں 8سالہ معصوم کی عصمت ریزی او رقتل کامقصد بکرے والا کمیونٹی میں ڈر اور خوف پیدا کرنا ۔

جموں۔چہارشنبہ کے روز پولیس افیسروں نے بتایا کہ جموں او رکشمیرکے ضلع کتھوا میں اسی سال جنوری کے دوران پیش ائے ایک معصوم بچی کے عصمت ریزی کے متعلق ڈی این اے سے یہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ متوفی بچی کو قتل سے قبل مندر میں محروس رکھا گیاتھا۔

ضلع کتھوا کے ہیرا نگر تحصیل میں واقعہ راسانا میں عصمت ریزی کے بعد اٹھ سالہ بچی کے قتل کے ڈی این اے کے متعلق ریاست کے کرائم برانچ پولیس کا کہنا ہے کہ جواجزاء معصوم متوفی کے بالو ں سے ملے ہیں وہ مندر کے اندرونی چیزوں سے میل کھاتے ہیں۔کرائم برانچ کے ایک ذرائع کا کہنا ہے کہ ’’ ملزمین میں سے ایک نے اس بات کو قبول کیاتھا کہ مندر کے مندر مذکورہ بچی کو رکھا گیاتھا جس کے بعد مندر کے احاطے میں تلاشی لی گئی‘‘۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ میں پہلے ہی اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ متوفی کی عصمت ریزی او رقتل سے قبل نشہ کرایاگیاتھا۔محکمہ مال کے ایک ریٹائرڈ عہدیدار سانجی رام کو اس پورے معاملے کا ماسٹر مائنڈ مانا جارہا ہے تاکہ’ بکیر والا ‘کو جو کتھوا میں موسم گرما کے آغاز کے ساتھ جمع ہوجاتے ہیں کو واپس بھگایاجاسکے۔

مذکورہ مندر جس میں مبینہ طور پر متوفی بچی کورکھنے کی بات کی جارہی ہے سانجی رام اس کا نگران کار بھی ہے۔ انڈین ایکسپریس میں شائع خبر کے مطابق متاثرہ معصوم بچی کی مندر کے اندر واقعہ پوجا کے حال میں تین مرتبہ عصمت ریزی کی گئی۔ ایک ملزم کو میرٹھ سے آیاتھا اس نے یہ گھناؤنا جرم انجام دیا۔ بعدازاں ملزمین نے پتھرسے وار کر کے لڑکی کو قتل کردیا۔

قتل سے قبل ایک پولیس جوان نے بھی مبینہ طور پر معصوم کی عصمت لوٹی۔جموں کشمیر کرائم برانچ نے پیر کے روز کتھوا عدالت کے چیف جوڈیشنل مجسٹریٹ ( سی جے ایم) میں سات لوگوں کو عصمت ریزی او رقتل کا ملزم بناکر ایک چارچ شیٹ پیش کی ہے۔پولیس نے کہاکہ ’’ سات ملزمین میں60سالہ سانجی رام‘ اسپیشل افیسر دیپک کھاجوراؤ اور سریندر ورما‘ سب انسپکٹر آنند دتا‘ ہیڈ کانسٹبل تلک راج‘ پرویش کمار اور سنجے کا کم عمر بیٹا ویشال ہیں‘‘۔

نابالغ کے ساتھ ظلم وزیادتی مارپیٹ اور تحویل میں رکھنے کے متعلق چارچ شیٹ علیحدہ طورپر پیش کی جائے گی۔ اس ضمن میں رکن اسمبلی سے تبصرے کے رابطہ کرنے پر ان کا فون بند ملا۔چہارشنبہ کے روز کتھوا کے رکن اسمبلی راجیو جسروٹی سے ان کے اسمبلی حلقہ میں عصمت ریزی او رقتل کے واقعہ کے متعلق سوالات کی بوچھا رہوئی تھی۔ جب اے این ائی نے جسروٹی سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش کی تو انہوں نے موبائیل فون پیغام کے ذریعہ کہاکہ’’ سر میں اسپتال جارہاہوں میرے ساس کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے‘‘اس کے بعد ان کا موبائل فون بند ہوگیا۔

جنوری کے مہینہ میں لڑکی کو تحویل میں رکھ کر نشہ کرایاگیا اور عصمت ریزی کے بعد اذیت دیکر قتل کردیا گیا۔ متاثرہ جموں اور کشمیر کے کتھوا ضلع میں ایک مسلم قبائیلی طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ ایک ہفتہ سے زیادہ وقت تک لاپتہ رہنے کے بعد جنوری17کو اس کی نعش ملی۔ درایں اثناء جموں کشمیر پولیس نے جموں کشمیر کے وکلا ء کے خلاف ایک ایف ائی آر کیاہے جنھوں نے کرائم برانچ افیسروں کو پیر کے روز عدالت میں کتھوا عصمت ریزی کیس کے متعلق چارچ شیٹ داخل کرنے سے روکنے کی کی تھی۔

جموں او رکشمیر کے ضلع کتھوا میں عصمت ریزی او رقتل کا شکار چارسالہ آصفیہ کے ساتھ انصاف کے لئے سوشیل میڈیا پر بھی بری پیمانے پر تحریک چلائی جارہی ہے ۔ فیس بک پر ایک پوسٹ ہے جو تیزی کے ساتھ وائیرل ہورہا ہے ۔

مذکورہ پوسٹ وکرم ویلامالا ہے جس آصفہ کے ساتھ انصاف کے ہیش ٹیگ کے ساتھ لکھتے ہیں کہ’’آصفیہ ایک اٹھ سال کی لڑکی جموں او رکشمیر کے کتھوا کی ایک مندر میں اجتماعی عصمت ریز کی جاتی ہے جہاں پر بی جے پی اور پی ڈی پی( جس کا مانا ہے کہ افضل گرو شہید ہے) کے ساتھ اقتدار میں ہے اور بی جے پی خود کو ہندو نیشنل پارٹی ‘‘ کا ہونا کا دعوی کرتی ہے۔

بی جے پی کی نمائندگی کرنے والے منسٹر کھلے عام عصمت ریزی کرنے والی کی حمایت کررہے ہیں‘ وہ بھی مندر کے اندر کئے جانے والی عصمت ریزی‘ آپ کیاسمجھتے ہیں بی جے ہندوازم کررہی ہے؟کیا اہمیت رہے گی جب تم مندر کے اندر عصمت ریزی کرنے والے کا بچاؤ کریں گے؟اب میں اپنے دوستوں سے کہتاہوں جو سونچتے ہیں ’ اب تم کیوں ایسے ویسا ہونے پر سوال نہیں کرتے۔۔۔۔۔میں انسان پہلے ہوں اور میں مانتاہوں ہر جرم اور ہر عصمت ریزی کا واقعہ قابل سزا ہے آصفیہ کے ساتھ انصاف عصمت ریزی کی ہر متاثرہ کے ساتھ انصاف ہوگا‘‘