جاہل جرنلسٹ جی کی جنجال بن گئے ۔ بقلم شکیل شمسی

بیسویں صدی سے قبل تک دنیا میں جنتے جرنلسٹ ہوئے وہ سب پیدائشی صحافی تھے مگر بیسویں صدی کے اوائل میں مغرب کے اہل دانش نے یہ فیصلہ کہ صحافت کو باقاعدہ طورپر ایک علم کی حیثیت سے روشناس کروایاجانا چاہئے او رامریکہ میں جرنلزم کا پہلا اسکول 1908میں قائم ہوا اور پھر دنیابھر میں صحافت کے اسکول کھلنے لگے۔

ہندوستان میں صحافت کی تعلیم دینے کے لئے 1965میں انڈین انسٹیٹوٹ آف ماس کمیونکیشن کا قیام ہوا ۔ میرا صحافت سے تعارف 1977میں ہوا جب جے این یو اسکول آف لینگویجز میں اسکرپٹ رائٹنگ فار ماس میڈیا کا کورس شروع ہوا ‘ اس کورس میں داخلہ لینے کے بعد ہی مجھے معلوم ہوا کہ صحافت کیاہے۔

اس کے بنیادی اصول کیا ہے او راس کے نشیب وفراز کیاہوتے ہیں۔

پھر دوردرشن کی نوکری کے دوران مجھے کئی بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیوں کے زیر اہتمام منعقد ہونے ولی تربیتی ورکشاپ میں صحافت کی ٹریننگ لینے کا موقع ملا ‘ جہاں معلوم ہوا کہ ٹی وی نیوز کے دوران کیادکھا یاجاناچاہئے کیا نہیں‘ وہیں معلوم ہوا کہ اصل جرنلزم کیاہے او رزرد صحافت کیاہے ‘ وہیںیہ بات بھی معلوم ہوئی کہ جب تک خبر کی تصدیق نہ ہوجائے تب تک خبر نشر نہیں ہونا چاہئے ۔

یہ بھی نامور صحافیوں نے بتایا کہ صحافی کا قلم قصائی کی چھری کی طرح نہیں ‘ سرجن کے چاقو کی طرف بدن کے ان حصوں پر چلتا ہے جن میں زہر پھیلنے کا ڈر ہے۔

ہمیں یہی سیکھایاگیا کہ ٹیلی وثیرن کی صحافت پرنٹ میڈیاجرنلزم کے مقابلہ مزیدپیچیدہ اور حساس ہے ‘ کوئی غلط تصویر یا آواز شہروں میںآگ لگاسکتی ہے ‘

مگر اب لگتا ہے کہ ہم کو بین الاقوامی ماہرین نے جو کچھ سیکھا یاوہ سب غلط تھا۔ انسانوں کو باخبر کرنا‘ انسانوں کوخطرات سے آگاہ کرنا‘ انسانیوں کی مصیبتوں کو دنیا کے سامنے پیش کرنا‘

اہم سیاست کی حرکتوں پر نگاہ رکھنا او رسیاست کے اتار چڑھاؤ کا ذکر کرنا ٹیلی ویثرن کی صحافت نہیں تھی بلکہ ملک بھر میں جنگ کا ماحول پید ا کرنا ‘ فسادات کی راہ ہموار کرنا‘ سنسنی پھیلانا ‘ جانبدارنہ رپورٹنگ کرنا ‘ حکومت کی چاپلوسی کرنا‘ ایک سیاسی پارٹی کے ماحول بنانا او رزور زور سے چلانا ہی ٹیلی ویثرن جرنلزم ہے۔ تصدیق کئے بغیرخبر نشرکردینا او رکسی کوبدنام کرنے کی مہم چلانا ہی ٹیلی ویثرن کی اصل صحافت ہے ۔ زہر افشانی کرنا پیشہ وارانہ صلاحیتوں کا حصہ بن گیا ہے ۔

اس لئے تو صحافت کاکورس کرنے اور بڑے بڑے انسٹیٹوٹ سے جرنلزم کی ڈگریاں لینے والے لو گ بھی ایسی صحافت کررہے ہیں کہ صحافت قصائی کی چھری نہ ہوکر چمبل کے ڈکیت کی رائفل ہوگئی ہے۔

ویسے ٹیلی ویثرن میں ایک مائیک ہوتا ہے جس کو گن مائیک کہتے ہیں۔ بعض وقت تو ایسا لگتا ہے کہ اسی گن مائیک کو کچھ نیوز چینلوں نے حقیقی بندوق بنالیاہے جس سے وہ کبھی اقلیتوں او رکبھی اپوزیشن پر گولیاں برسانیہ نکل پڑتے ہیں۔

کل اسی گن مائیک کی گولیں ایک عالم دین کی شخصیت او رعام مسلمانوں کے دلوں پر چل گئیں۔رپبلک نیوز چیانل کے جاہل جرنلسٹوں نے جموں وکشمیر جماعت اسلامی پر پابندی لگنے کی خبر چلائی تو ان کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ حکومت نے جماعت اسلامی ہند پر نہ تو کوئی پابندی لگائی ہے نہ اس سے سرکار کوکوئی شکایت ہے ۔

مگر نیوز چینل کے جاہل جرنلسٹوں نے انتہائی شریف النفس انسان مولانا جلال الدین عمری صاحب کا فائل فوٹیج یہ کہہ کر چلانا شروع کردیا کہ وہ جموں کشمیر کی جماعت اسلامی کے کمانڈر انچیف ہیں۔ ادھر سی این این نیوز 18نے مسعود اظہر کی زمین وجائیداد کی خبر چلائی تو مسعود اظہر کے بھاول پور میں واقع مدرسے کی تصاویر کے ساتھ مسجد الحرام ‘ مسجد نبوی او رمسجد اقصی کا فائل فوٹیج دکھانا شروع کردیا۔

مجھے اس کی اطلاع ایک قاری سے ملی جنھوں نے صحافت کا یہ روپ دیکھنے کو کہا تو میں نے مذکورہ چینل کھول کر اپنی آنکھ سے گمراہ کن نیوز دیکھی۔

ویسے مجھے اس معاملے میں مسلم دشمنی کے بجائے جہالت کاعنصر زیادہ نظر آیا‘ء کیونکہ میں جانتاہوں کہ نیوز میں کام کرنے والوں کو اس بات کی عادت پڑگئی ہے کہ ادھوری معاملوت کو بنیاد بناکر پورے پورے پروگرام کو نشرکردئے جائیں‘ خصوصا مسلمانوں کے معاملات میں بہت ہی بد احتیاطی سے کام لیاجاتا ہے ۔ ہمارے خیال میں اس قسم کی حرکتوں کا سدباب کرنے کے لئے چینلوں کے خلاف تادیبی کاروائی سرکارکوکرنا چاہئے۔