اندازہ ہے کہ 28ڈسمبر2017کو مرکزی وزیر قانون روی شنکر پرساد پارلیمنٹ وہ بل پیش کردیں گے جس کا تعلق تین طلاق سے ہے۔ ایوان زیرین کے ٹیبل پر رکھے جانے والے اس بل کا نام ’ دی مسلم ویمن( پروٹکشن آف رائٹس میریج) بل2017ہے۔ اس کا تعلق ایک ساتھ تین طلاق دینے سے ہے ۔ سپریم کورٹ نے 22اگست 2017کو فیصلہ سنادیاتھا کہ اگر شوہر نے تین طلاق ایک ساتھ دے تو وہ بے اثر ہوگی اور ازدواجی زندگی پر اس طلاق کا کوئی اثر نہیں پڑیگا۔ قانونی مثالوں کی روشنی میں اگر اس تین طلاق کو سمجھا جاسکتا ہے تو یہ کہ اس طرح کی بات ایک نامناسب لفظ تھا‘ جو زبان سے نکل گیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ایسی طلاق کی حیثیت اس سے کچھ زیادہ نہیں ہے۔ شرعی لحاظ سے ’ طلاق‘ کا لفظ میاں بیوی کے رشتے میں دراڑ ڈالنے والا اور تین دفعہ استعمال ہوتو اس رشتے کو یکسر ختم کرنے والا ہے۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے نے مسلم سماج کے لئے بڑی مشکل پیدا کردی ہے۔ کورٹ کے فیصلے کے لحاظ سے ایک او ردو طلاق تو نتیجہ خیز ہے مگر تین طلاق بے اثر ہے جبکہ شرعی لحاظ سے تین طلاق کے بعد شوہر اور بیوی کا رشتہ فوراً ختم ہوجاتا ہے اور دونوں کا ساتھ زندگی گزارنا حرام ہے ۔ مسلم اس مرحلے میں بڑی مشکل میں پڑجائے گا کیونلہ مسلمانوں کے لئے حلال اور حرام کی سرحدیں واضح ہیں۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ اپنی جگہ مگر تین طلاق کے بعد سابق میاں بیوی ساتھ رہے تو شریعت کے لحاظ سے وہ بالکل حرام ہے ۔
کورٹ نے یہ بلکل نہیں سوچا کہ ایسا فیصلہ مسلمانو ں کو کتنی الجھن اور کیسے تضاد میں ڈال دے گا۔ اب مرکزی وزیر قانون نے نئے بل کے ذریعہ یہ اضافہ کیا کہ سپریم کورٹ ے کالعدم اور بے اثر طلاق کو کریمنل اقدام مان لیا۔ انہیں سوچنا چاہئے تھاکہ بے اثر لفظ کی تکرار کوئی کریمنل اقدام کیسے ہوجائے گا۔اس بل کو لانے کی ضرورت کیوں پڑی؟ اس کی وضاحت دینے سے باز نہیں آرہے تھے اور ایک ساتھ تین طلاق کے بہتر(72) کیس ریکارڈ کئے گئے اسلئے سخت قانون کی ضرورت پڑی۔پہلا سوال تو یہ ہے کہ جب سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیش نظر طلاق دینے کا کوئی اثر ہی نہیں توپھر تین طلاق کو سخت قانون سے روکنے کا کیامطلب ہے؟ دوسری بات یہ ہے کہ تازہ بل میں تین طلاق دینے والے تین سال کی سزاء کے مستحق قراردئے گئے ہیں اور بیوی بچوں کی کفالت بھی طلاق دینے والے کے ذمے ہوگی۔
اب اگر تین طلاق کے بعد عورت نے مجسٹریٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور طلاق دینے والا تین سال کے لئے جیل چلاگیا تو اس عورت اور بچوں کا کھانا خرچہ اور تعلیمی کفالت مردجیل میں رہ کر کس آمدنی سے کرسکے گا؟تیسری بات یہ ہے کہ جب مرد تین سال جیل میں زندگی گزار کر باہر ائیگا تو وہ عورت اس وقت بھی اس کی بیوی رہے گی( جیسا سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے مگر موجود ہ بل میں اس معاملہ پر خاموشی ہے)ایسی صورتحال میں جس عورت نے مرد کو تین سال جیل ی ہوا کھلائی ہو‘ اسے بیوی کی حیثیت سے ساتھ رکھنا کیا عملا ممکن ہوگا؟بل کا یہ پہلو بھی قابل توجہ ہے ہ یہ کریمنل ایکٹ بننے والا ہے جبکہ نکاح معاہدہ اور سیول معاملہ ہے سیول معاملہ کو کریمنل بنادینا خود قانون دانوں کی واضح رائے کے خلاف ہے۔
سال2006میں سپریم کورٹ کے ججوں ایچ کے سیما اور آروی ریندرن نے فیصلہ سنایاتھا کہ سول معاملات کو کریمنل بنادینا صحیح نہیں ہے ‘ ایسی کسی بھی کوشش کو بہتر نہیں کہاجاسکتا ‘ یہ طریقہ کار انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے جس کی حوصلہ شکنی ضروری ہے ۔ جب سپریم کورٹ نے ایک ساتھ تین طلاق کو بے اثر بنادیا ہے تو بیوی کے لئے پھر اس میں نہ علیحدگی کا معاملہ ہے اور نہ کوئی بری بات ‘ اسے تشدد آمیز جملہ نہیں کہاجاسکتا اور نہ اسے گالی کے درجے میں رکھا جاسکتا ہے۔