گائے بچانے کے نام پر شرو ع ہوئی ہجومی تشدد سے ایک نیا خطرہ پیدا ہوگیاہے‘ جس کا اثر قانونی نظام پر نہیں بلکہ سیدھے کسان اور کھیتی پر پڑ سکتا ہے۔ تشدد کے خوف کا سیدھا اثر گائیوں کی خرید وفروخت پر پڑتا دیکھائی دے رہا ہے۔
گائیوں کی پرورش اور افزائش کرنے والوں کے سامنے بڑا سوال یہ ہے کہ ایک مقرر وقت کے بعد جب گائے دودھ دینا بند کردیتی ہے‘ تب وہ اس کا کیاکریں گے؟صرف چارہ کھلانے کے لئے گائے کی پرورش ان کے لئے ممکن نہیں ہے۔
بریلی کے انڈین وینٹرنری ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ڈائرکٹر ڈی آر کے سنگھ کہتے ہیں کہ اگر اس طرح کے حالات بنے رہے تو لوگ گائیپالاا سے کنارے کرنے لگیں گے۔ اس کا سیدھا اثر ملک کے کھیتی پر پڑے گا۔
ایک تو لوگوں کو گائے کے گوبر سے تیار ہونے والی کھاد نہیں ملے گی اوردوسرا گائے نہیں ہونگے تو کھیت میں ہل چلانے کے لئے بیل کہاں سے ائیں گے؟۔
زراعی امور پر عبور رکھنے والی سماجی سائنس داں بھرت ڈوگرا کا کہنا ہے کہ کھیتی باڑی کے لئے زمین کو زرخیز بنانے کے لئے کھاد بے حد ضروری ہے۔
ملک میں آج عارضی وسائل کے ذریعہ کھیتی باڑی کاکام کیاجارہا ہے جس کی وجہہ سے نقصان کا سامنا بھی کرنا پڑرہا ہے۔ دوسری چیز کے آج بھی ملک میں چھوٹے قصبات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔
جہاں پر ٹریکٹر کے ذریعہ کھیتوں میں ہل چلانا ناممکن ہے او ربالخصوص پہاڑی علاقوں میں یہ کام مشکل اورناممکن دونوں ہے۔اگر بیل نہیں ہونگے تو یہاں پر بینچ بونے کاکام کیسے کیاجائے گا۔
اس کا راست اثر اناج کی پیدوار پر ہی نہیں بلکہ کسان کی آمدنی پر بھی پڑیگا۔اور ساتھ میں دودھ کی جو قلت ہوگی وہ الگ ہے۔ دونوں ماہرین کے مطابق‘ یہ اس وقت پیش آرہا ہے جب حکومت قدرتی کھیتی پر زور دے رہی ہے۔
ایسے میں اگر لوگوں نے تشدد کے خوف میں گائے کی پرورش او رافزائش بند کردی تو حکومت کی کوشش کو گرہن لگ جائے گااور اس کا اثر ماحولیات پر بھی پریگا۔
ملک بھر میں گائے کی تعداد ایک اندازے کے مطابق تیس کروڑ ہے۔ دنیا بھر میں دو دھ کی پیدوار کے لئے ہندوستان کو نمبر ون کا جو درجہ ملا ہے اس میں گائیو ں کا بڑا تعاون ہے۔
ہندوستان میں ایک گائے کی عمر کا اوسط اس کی نسل کی مناسبت سے پندرہ تا بیس سال ہوتی ہے۔ دیسی نسل کے گائے عام طور پر دس سے بارہ سال تک دودھ دیتی ہیں جبکہ سنکر نسل کی گائے سات تا اٹھ سال تک دودھ دیتی ہیں۔