نئی دہلی۔ 21 جنوری (سیاست ڈاٹ کام) تاجکستان کی پولیس نے اسلامی شدت پسندی پر قابو پانے کیلئے 13,000 سے زائد مرد حضرات کی داڑھیاں منڈوا دیں اور تقریباً 160 دُکانات کو بند کروایا جہاں پر مسلم تہذیب و تمدن کے لباس فروخت کئے جارہے تھے۔ ’’الجزیرہ‘‘ نیوز چیانل نے بتایا کہ وسطیٰ ایشیا میں مسلم اکثریتی ملک نے 1,700 سے زائد خواتین کو یہ ترغیب دی کہ وہ ’’ہیڈ اِسکارف‘‘ نہ پہنیں۔ سکیولر قیادت نے یہ اقدامات پڑوسی ملک افغانستان کے اثرات کو زائل کرنے کیلئے کئے ہیں۔ تاجکستان پارلیمنٹ نے عربوں سے ملتے جلتے نام رکھنے اور ’’کزنس‘‘ میں شادیوں پر پابندی عائد کردی ہے جبکہ اسلام میں اس طرح کی شادیوں کی اجازت ہے۔ صدر ایمومالی رحمن جوکہ 1994ء سے برسراقتدار ہیں، توقع ہے کہ جدید قوانین کا نفاذ عمل میں لائیں گے تاکہ سکیولرازم کا فروغ اور عوام کو بیرونی اثرات سے بچایا جائے۔ وہ سال 2020ء تک صدر مملکت کی حیثیت سے برقرار رہیں گے۔ 63 سالہ رحمن جنہوں نے سابق سوویت دور سے عنان حکومت سنبھالے ہوئے ہیں، 8 ملین نفوس پر مشتمل اس ملک میں گزشتہ 23 سال کے دوران اپنے اقتدار کو مضبوط و مستحکم بنایا ہے جہاں پر 1992-97ء کی خانہ جنگی کے دوران ہزارہا افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ انہوں نے بغاوت کا الزام عائد کرتے ہوئے اپوزیشن ’’احیائے اسلام پارٹی‘‘ پر امتناع لگا دیا ہے۔