بھگوا کارکنوں نے مولوی کے گھر کا گھیراؤ کیا جہاں پر ایک ہندو لڑکی اپنے مسلم دوست ساتھ مقیم تھی

پوتور:پوتور تعلقہ کے کوئلہ گاؤں میں مسلم عالم دین کے گھر مقیم تین غیر مسلم لڑکیوں کو لیکر بھگوا کارکنوں کی جانب سے اعتراض جتائے جانے کے بعد علاقے میں فرقہ وارانہ تشدد پھوٹ پڑا۔ 21فبروری کی شام اس وقت یہ واقعہ پیش آیا جب ہندتوا کارکن مسلم عالم سے ان کے گھر میں رہنے والی ہندو لڑکیوں کے متعلق سوالات کرتے ہوئے ان کے گھر کا گھیراؤ بھی کیا

۔ٹائمز آف انڈیاکی رپورٹ کے مطابق محمد جو کہ ایک مقامی مسجد کے عالم ہیں واقعہ کے وقت اپنے گھر پر نہیں تھے۔عالم دین کے بیٹی اور ان کی جماعت کی ساتھی ریا‘ رینا او رسونیا( تبدیل شدہ نام) جوکہ جی ایس ایس ایس انسٹیٹوٹ آف انجینئرنگ اینڈ ٹکنالوجی فار ویمن جوکہ میسور کی ہیں کہ تعطیل کی وجہہ سے دکشن کننڈا ائی ہوئی تھی ۔

او رتینوں لڑکیوں نے ثمینہ کے گھر میں قیام کرنے کا فیصلہ بھی کرلیا۔جیسے ہی اس بات کی اطلاع دائیں بازو تنظیموں کے کارکنوں کو ملی تو انہیں ہنگامہ کھڑا کرتے ہوئے سوشیل میڈیا کے ذریعہ افواہیں بھی پھیلانا شروع کردیا کہ ہندو لڑکیو ں کو مسلمان نے اپنے گھر میں محروس کررکھا ہے او رمذکورہ خاندان پر لڑکیو ں کو اغوا کرنے کا بھی ان لوگوں نے الزام لگایا

۔منگل کے روز شام7بجے کے قریب دوکمیونٹی کے لوگ جمع ہوکر مولوی کے گھر کے قریب پہنچے۔

دکشینا کننڈا سپریڈنٹ آف پولیس بھوشن گلاب راؤ بوراسی دیگر پولیس حکام کے ساتھ موقع پر پہنچے اور فوری طور پر ہجوم کومنتشر کرتے ہوئے حالات پر قابو پالایا۔

جب ہجوم پرامن انداز میں غائب ہورہا تھا تب ہی ہجوم میں سے ایک شخص نے دوسری طبقے کے خلاف تبصرہ کیا جس کی وجہہ سے حالات کشیدہ اوربے قابو ہوگئے ۔ اس واقعہ میں ایک شخص زخمی بھی ہوا ہے۔ایس پی نے دو نوں کمیونٹی کے لوگوں سے امن قائم رکھنے کی اپیل کی ۔

عالم دین کی اہلیہ اور زخمی شخص نے کاڈاپا پولیس اسٹیشن میں ایک شکایت بھی درج کرائی ہے۔اس واقعہ میں چوبیس افراد پر مقدمہ درج کیاگیا ہے۔

مذکورہ واقعہ کے بعد تینوں لڑکیو ں نے میسور میں اپنے کالج واپس جانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔