دی وائیر کے فیس بک لائیوپروگرام کے دوران امیت سنگھ نے دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپروآنند کا تعارف کرواتے ہوئے کہاکہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ انند ہیگڈہ نے بیان دیا ہے کہ بی جے پی دستورہند کو تبدیل کرنے کے لئے اقتدار میں ائی ہے اور اس پر پروفیسر اپروآنند کی رائے ہم جاننا چاہیں گے ۔
جواب میں پروفیسر اپروآنند نے کہاکہ یہ بیان دراصل بی جے پی رکن پارلیمنٹ کا ہوتا تو کوئی تشویش کی بات نہیں تھی مگر اس قسم کے بیانات اور ائے اکثر آر ایس ایس پیش کرتی ہے جس کا بنیادی مقصد ہی دستور ہند کو تبدیل کرنا ہے۔
انہو ں نے بتایا کہ راشٹرایہ سیوم سیوک سنگھ ( آر ایس ایس ) نے دستور قائم کرنے کے ساتھ ہی یہ بات کہی تھی کہ مذکورہ دستور بھارت کے نظریہ کے عین خلاف ہے ۔ اس ضمن میں انہوں نے گوالوالکر کی لکھے ہوئے مضامین کا بھی حوالے دیا جو آرایس ایس کے قدیم چہرے بھی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دین دیال اپادھیائے جن کی مقبولیت کا اندازہ بی جے پی کے مرکز میں برسراقتدار آنے کے بعد ہوا کیونکہ برسراقتدار پارٹی نے قومی سطح پر دین دیال اپدھیائے کی جینتی منائی تھی اور کئی ریاستوں کی بی جے پی حکومت نے اپنے لیٹر ہیڈ پر دین دیال اپدھیائے کو جگہ دی ہے اور گاندھی کے برابر کا مقام دیا ہے ہیں۔ اپادھیائے نے بھی دستور ہند پر سخت لفاظوں میں مذمت کی تھی اور تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاتھا کہ یہ بھارت کی سونچ سے میل کھانے والی چیز نہیں ہے۔
سردار ولبھ بھائی پٹیل نے گاندھی کے قتل کے بعد ان پر لگی پابندی ہٹانے کے لئے جو شرط رکھی تھی اس میں آر ایس ایس کودستور ہند قبول کرنا بھی شامل تھا اس وقت تک آرایس ایس کا دستور ہند پر کوئی یقین نہیں تھا‘ نہ تو وہ ترنگے پر یقین رکھتے تھے اور نہ ہی دستور ہند پر ان کا یقین تھا۔
سردار ولبھ بھائی پٹیل کی دھمکی کے بعد کہ اگر وہ ان شرائط کو قبول نہیں کریں گے تو ان پر امتنا ع جاری رہے گا کے بعد ہی انہو ں نے مجبوری کی حالت میں دستور ہند کو قبول کیاہے۔ آگے پروفیسر اپرو آنند نے دستور ہند کے متعلق تفصیلات پیش کرتے ہوئے اس کے دائرکار میں آنے ذمہ داریوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔