بریلی۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر کاس گنج تشدد کے پیش نظر فیس بک پر پوسٹ کرنے والے بریلی کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ساتھ بری طرح ٹرال او ران لائن بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا ۔ بریلی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ راگھو ویندر ا وکر م سنگھ ن نے اپنے فیس بک پوسٹ پر لکھا تھا کہ ’’ مسلم علاقو ں میں جبرا ریالی نکالنے کی وجہہ سے تشدد پیش آیا ہے‘‘۔
ان لائن بدسلوکی اور ٹرول کے بعد انہیں فیس بک سے اپنا پوسٹ ہٹانے کے لئے مجبور کیاگیا اور منگل کے روز ڈی ایم بریلی نے اپنا مذکورہ پوسٹ فیس بک سے ہٹادیا۔اس کے باوجود ڈی ایم اپنے موقف پر قائم ہیں اور ٹی او ائی سے انہو ں نے کہاکہ ’’ میرے کچھ کہنے سے کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے تو میں اس کے لئے معذرت خواہ ہوں‘مگر اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہمارے سیکولر اقدار داؤ پر ہیں‘ ہر قیمت پر ہمیں ان کا تحفظ کرنا ضروری ہے‘‘۔
جب ان سے پوچھا گیا کیا آ پ کو حکومت کی جانب سے پوسٹ ہٹانے کی ہدایت دی گئی ہے تو انہوں نے کہاکہ’’ مجھے اب تک کسی سے بھی ہدایت نہیں ملی۔ اس کے علاوہ انہوں نے کہاکہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان ہمارا بدترین دشمن ہے مگر اس بات سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ہندوستان کے مسلمان ہمارے بھائی ہے اور ہمارے ڈی این اے ایک ہی ہے‘‘۔ ایک روز قبل ہی اترپردیش کے ڈپٹی چیف منسٹر کیشو پرساد موریا نے بریلی ڈی ایم کے پوسٹ پر کہاتھا کہ ’’ ڈی ایم کا بیان کسی سیاسی پارٹی کے ترجمان جیسا تھا ۔ ڈی یم کو اس طرح کے پوسٹ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔
ریاستی حکومت کو سنجیدگی سے لے گی اس کے مطابق پہل بھی کی جائے گی‘‘۔ اس کے بعد ہی ڈی ایم نے اپنا پوسٹ ہٹایا۔اس کے علاوہ ڈی یم کا کہنا ہے کہ ان کے پیغام کو لوگوں نے غلط انداز میں لیا ہے۔منگل کے روز دوپہر میں ڈی ایم نے نے فیس بک پر تازہ پوسٹ میں لکھا کہ’’ میرا پوسٹ نظم ونسق کی موجودہ حالات کے پیش نظر تھا جس پچھلے سال کنور یاترا کے موقع پر پیش ائے واقعہ کونظر میں رکھ کر کیاگیا تھا۔
مجھے امید تھی کہ اس پر صحت مند بحث ہوگی‘ مگر اتفاق سے اس کو دوسرے نظریہ سے لیاگیا ۔ نہایت شرمندگی کی بات ہے‘‘۔ٹی او ائی سے فون پرلکھنو سے بات کرتے ہوئے سنگھ نے کہاکہ ’’ مجھے یہ سمجھنے میں دشواری ہورہی ہے کہ ہماری سونچ اور سونچنے کا نظریہ کس قدر تنگ ہوگیا ہے۔کچھ لوگ یہ سمجھنے میں ناکام ہوگئے ہے کہ میں ملک کے مفاد میں بڑے پیمانے پر اس کو زیر بحث لانا چاہتا ہوں‘میرے پاس اپنے فیس بک پوسٹ کو ہٹانے کے علاوہ کچھ دوسرے پہلو باقی نہیں رہا۔
میں ان لوگوں سے معافی مانگنا چاہتا ہوں جس کو پورے پوسٹ سے تکلیف پہنچی ہے‘ مگر اس بات کو نظر انداز نہیں کیاجاسکتا ہے کہ ہمارے سکیولر اقدار داؤ پر ہیں ‘ اس کے تحفظ کے لئے ہر قیمت پر کچھ کرنا ہوگا‘‘۔فرض شناس سنگھ نے اپنا تازہ پوسٹ میں لکھا کہ ’’ مسلمان یہا ں پر ہمارے بھائیوں کی طرح رہتے ہیں۔ہمارے رگوں میں دوڑنے والا خون ایک ہے۔ ہمارا ڈی این اے بھی ایک ہے۔ ہم ان کے ساتھ گھل مل کر رہنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔
بہت جلد ہمیں اس بات کا اندازہ ہوجائے گا‘ یہ ہمارے ملک ‘ ریاست اور ضلع کے لئے بہتر ہوگا۔ اس کو کچھ شبہ ہے کہ پاکستان ہمارا دشمن ہے ۔مگراس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہندوستانی مسلمان ہمارے بھائی ہیں‘‘۔جو دوپوسٹ ہٹادئے گئے ہیں اس میں ڈی ایم نے لکھا تھا کہ ’’ عجب رواج بن گیا ہے ۔ مسلم محلووں میں زبردستی جلو س لے جاؤ اور پاکستان مردہ باد کے نعرے لگا۔ کیوں بھائی وہ پاکستانی ہیں؟۔ یہی یہاں بریلی میں خیالام میں ہوا تھا ۔
پھر پتھراؤ ہوا ‘ مقدمے درج ہوئے۔۔۔‘‘۔پچھلے سال جولائی 15کو کنوار یاترا کے دوران ائی ٹی بی پی کے پندرہ جوان اور دودرجن سے زائد کنوریا لوگ اس وقت زخمی ہوئے تھے جب مسلم آبادی والے علاقے سے جلوس نکالا گیاتھا ۔ جس کے فوری بعد دوگروپوں کے درمیان تصادم کا واقعہ پیش آیا اور ڈھائی مسلمانوں کو اس کے بعد گرفتار کرلیاگیا۔ایک دوسرے پوسٹ میں سنگھ نے پوچھا کہ کیوں چین کے خلاف نعرے نہیں لگائے جاتے جو کہ ایک بڑا دشمن ہے’’ چین تو بڑا دشمن ہے ترنگا لے کر چین مردہ باد کے نعرے کیوں نہیں لگائے جاتے؟۔