نے پی وا: میانمار کی ریاست راکھین میں فوجی کارروائی کے بعد روہنگیا مسلمانوں کی بنگلہ دیش ہجرت کو ایک سال ہوگیا ہے ۔ اس دوران روہنگیا ئی مسلمانوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔ ان کی میانمار کو واپسی کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے۔ واضح رہے کہ ۲۵؍ اگست ۲۰۱۷ء کو میانمار کی ریاست راکھین میں ایک ایسی فوجی کارروائی شروع ہوئی جسے اقوام متحدہ نسلی تطہیر سے تعبیر کرتی ہے۔ اس دوران سات لاکھ سے زیادہ روہنگیائی مسلمانوں نے اپنے گھر بار چھوڑکر پیدل او رکشتیوں کے ذریعہ پڑوسی ملک بنگلہ دیش کا رخ کیا ۔ اس بحران کی وجہ سے بنگلہ دیش پر شدید دباؤ ہے کیو نکہ کاکس بازار میں تین لاکھ سے زائدروہنگیا آباد ہوچکے ہیں ۔
میانمار حکومت کے مطابق وہ ان افراد کو واپس لینے تیار ہے لیکن انہیں شہریت نہیں دی جائے گی ۔ میانمار انہیں غیر قانونی بنگالی مہاجرین قرار دیتا ہے ۔ایک سال گزرجانے کے بعد بھی روہنگیا ئی مسلمانوں کو شدید مسائل کا سامنا ہے۔اس تناظر میں عالمی ادارہ صحت کے ڈاکٹر پیٹر سلامہ نے کہا کہ اس موقع پر بنگلہ دیش کی حکومت کو علاقائی او ربین الاقوامی برادری کے تعاون کی ضرورت ہے ۔مالی امداد کے بغیر مختلف وبائی بیماریوں پر قابو پانا ممکن نہیں ۔اسی دوران عالمی بنک نے کاکس بازار میں بنیادی سہولتوں کی تعمیر ، تعلیم و صحت کے شعبوں کیلئے پانچ سو ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کیا ہے۔روہنگیائی مسلمانو ں کو سب سے زیادہ نسلی تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
یہ لوگ نہ تو اپنی مرضی سے کہیں جاسکتے ہیں نہ اپنی مرضی سے کام کرسکتے ہیں۔ جن گھروں اور جھونپڑیوں میں یہ لوگ رہتے ہیں انہیں کبھی بھی او رکسی بھی وقت خالی کرنے کاکہا جاسکتا ہے۔ یہ لوگ کئی دہائیوں سے راکھین صوبے میں رہ رہے ہیں ۔ لیکن کے بدھ مت لوگ انہیں بنگالیت کہہ کر پکار تے ہیں ۔انہیں میانمار میں روہنگیا افراد کو ایک نسلی گروپ کے طور پر تسلیم ہی نہیں کیا جاتا ۔ان کے ملک کے آئین کے 1982ء کے آئین کے مطابق شہریت حاصل کرنے کیلئے کسی بھی نسلی گروپ کو یہ ثابت کرنا ہے کہ وہ 1823ء سے قبل بھی میانمار میں ہی تھے ۔