نئی دہلی: ایودھیا میں رام جنم بھومی اور بابری مسجد تنازعہ کے پرامن تصفیہ کے لئے منگل کے روز سپریم کورٹ نے مشورے کے بعد صدیوں سے زیر التواء مذکورہ حساس مسئلہ پھر ایک بار مذہبی اور سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔
پانچ سو سال قبل 1528میں ایودھیا کے اندر بابری مسجد کی تعمیر پہلے مغل حکمران بابر کے کمانڈر میر باقی نے کی تھی جس کو بابر کے نام سے منسوب کرتے ہوئے بابری مسجد نام رکھا گیا۔یہاں پر اس کے متعلق تنازع کے ٹائم لائن پیش کئے جارہے ہیں۔
اس مقام پر پہلی بار1853میں پہلا تشدد کا بڑا حادثہ اودھ کے نواب واجد علی شاہ کے دور میں پیش آیا۔ جب نرموہیس ہندوسماج کے ایک طبقے نے اسبات کا دعویٰ کیاکہ بابر کے وقت یہاں پر موجود مندر کو منہدم کرکے مسجد کی تعمیر کی گئی تھی۔
اس کے بعد1859میں برطانیہ حکومت کے انتظامیہ نے یہاں پر علیحدہ عبادت کے لئے ایک باڑ کھڑی کردی۔جبکہ مسلمانوں کو اندرونی حصہ میں عبادت کرنے اور ہندوؤں کو باہر کے حصہ میں پوجا پاٹ کرنے کی اجازت دی گئی۔
پھر1885کے ماہ جنوری میں مہنت راگھویر داس نے پہلامقدمہ دائر کرتے ہوئے مسجد کے باہر کے حصہ میں جہاں رام چبوترہ موجودہے اس پر ایک چھتری تعمیر کرنے کی اجازت مانگی۔ فیض آباد ضلع عدالت نے اس درخواست کو مستردکردیاتھا۔
سال1949میں بھگوان رام کی مورتی مسجد کے اندر سے برآمد ہوئی۔ جو مبینہ طور پر ہندوگروپس کی طرف سے رکھی گئی تھی۔ دونوں گروپوں نے ایک مقدمہ درج کروایا‘ حکومت نے اعلان کیاکہ مذکورہ علاقے متنازع بن گیا ہے اور اس مقام کے دروازوں کو مقفل کردیا۔
سال 1950میں گوپال سنگپ ویشارڈ اور مہنت پرامہنس رام چند رداس نے فیض آبادکی عدالت سے رجوع ہوکر جنم استھان پر رکھی مورتیوں کی پوجا کرنے کی اجازت مانگی۔ جنگی اندرونی حصہ مقفل تھا‘ عدالت نے اس درخواست پر منظوری دیدی۔
اس کے بعد سال1959میں نرموہی اکھاڑہ نے تیسرا مقدمہ دائر کیاجس میں انہوں نے عدالت سے گذارش کی کہ مذکورہ مقام کا انہیں قبضہ دیدے اور دعویٰ کیا کہ وہ رام جنم بھومی کے نگرانکار ہیں۔
پھر اس کے بعد 1961میں سنی سنٹرل بورڈ نے مسجد کے اندر مورتیوں کی موجودگی کے خلاف ایک مقدمہ دائر کرتے ہوئے اس بات کا دعویٰ پیش کیاکہ مسجد کے اطراف واکناف کی زمین دراصل قبرستان تھا۔
سال1948میں ہندؤں کے گروپ نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس پر جنم بھومی کے مقام پر رام مندر کی تعمیر عمل میں لائی جائے ۔ مندر کی تحریک شدت اختیار کرتی گئی۔ بھارتیہ جنتاپارٹی کے لیڈر ایل کے اڈوانی کو تحریک کی باگ ڈور سونپی گئی۔
سال1986میں ہری شنکر دوبے کی ایک درخواست پر عدالت نے حکم دیا کہ مسجد کے اندرونی حصوں کے دروازے کھول کر ہندؤوں کو پوجا پاٹ کی اجاز ت دی جائے۔ اس فیصلے کے خلاف مسلمانوں نے احتجاج کیا جس کے بعد فیصلہ واپس لے لیاگیااور اسی دوران بابری مسجد ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیا۔
پھر1989میں مسجد سے متصل اراضی پر وشواہندوپریشد ( وی یچ پی) نے رام مندر کی تعمیر کا سنگ بنیاد رکھا۔ جسٹس دیوکی نندن اگروال سابق وی ایچ پی نائب صدر نے مسجد کو کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کی عدالت کو درخواست پیش کی۔ چار مقدمہ جو فیص آباد کی عدالت میں زیر التواء تھے انہیں ہائی کورٹ کی خصوصی بنچ کے حوالے کردیاگیا۔
سال1990میں وی ایچ پی کارکنوں نے مسجد کو نقصان پہنچایا۔ وزیراعظم چندرشیکھر نے مداخلت کی اور دونوں گروپوں کو ایک ساتھ بیٹھاکر مسلئے کے پرامن حل کی سعی بھی کی مگر وہ ناکام رہی۔اڈوانی نے عوام میں رام مندر تحریک کے متعلق شعور بیداری کے لئے رتھ یاترا کی شروعات کی ۔
انہو ں نے گجرات کے سومناتھ سے اس کا آغازکیا اور یہ یاترا یودھیا میں ختم ہوئی
۔سال 1991میں بی جے پی بڑی اپوزیشن سیاسی جماعت بن کر ابھری اور رتھ یاترا کی وجہہ سے اس کو اترپردیش میں اقتدار بھی حاصل ہوا۔ مندر تحریک کی سرگرمی میں شدت کے ساتھ اضافہ ہوا اور کارسیوک بڑی تعداد میں ایودھیا میں جمع ہونے لگے۔
سال1992میں میں کارسیکوں نے 6ڈسمبر کو بابری مسجد کو شہید کرتے ہوئے زمین دوز کردیا‘ اس میں شیوسینا‘ وی ایچ پی‘ اور بی جے پی بھی شامل تھے۔ اس کی وجہہ سے سارے ملک میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے جس میں تقریبا2,000لوگ ہلا ک ہوگئے۔
مرکزی حکومت جس کی نگرانی پی وی نرسمہا راؤ کررہے تھے نے جسٹس لبراہن کی نگرانی میں ایک کمیشن قائم کیا جو ان واقعات کی تحقیقات کرے ‘ کمیشن نے ڈسمبر 16کو اپنی رپورٹ پیش کردی۔
سال2001میں بابری مسجد شہادت کی برسی کے موقع پر تشدد پھوٹ پڑا۔ وی ایچ پی نے رام مندر کی تعمیر کے لئے ایک کمیٹی دوبارہ تشکیل دی۔
سال2002فبروری میں گودھرا ٹرین حملے کا واقعہ پیش آیاجو کارسیوکوں کو لیکر ایودھیا جارہی تھی‘ اس واقعہ میں کم ازکم58افراد کی ہلاکت پیش ائی۔ پوری ریاست میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے اور 1,000سے زائد لوگ اس میں مارے گئے۔
عدالت نے ارکیالوجیکل سروے آف انڈیا ( اے ایس ائی) کو حکم دیا کہ وہ متنازعہ مقام پر سابق میں مندر کی موجودگی کے متعلق تحقیقات کرے۔ اپریل2002ہائی کورٹ کے تین ججوں تعین کیا جو متعلقہ لوگوں کی سنوائی کرے۔
سال2003میں اے ایس ائی نے اس کی شروعات کی ۔ انہیں مسجد کے اندر سابق میں مندر کی موجودگی کے ثبوت بھی ملے۔مسلم تنظیموں نے شواہد پر شبہ ظاہر کیا۔ ستمبر میں ایک عدالت نے سات ہندولیڈروں پر مسجد کو مہندم کرنے کے لئے لوگوں کو اکسانے کا قصور پایا۔
اڈوانی جو نائب وزیراعظم تھے پر کسی قسم کا کوئی الزام عائد نہیں کیاگیا۔
سال2004میں کانگریس دوبارہ اقتدار میں ائی ۔ یوپی کی ایک عدالت نے اپنے سابق فیصلے کو تبدیل کرتے ہوئے اڈوانی کے نام کو بھی مقدمہ میں شامل کیا۔
سال2005میں مشتبہ اسلامی دہشت گردوں نے متنازعہ مقام پر حملہ کیا۔ سکیورٹی فورسس نے پانچ مبینہ دہشت گرد اور چھ نامعلوم افراد کو مارگرایا۔
سال2009جون میں لبراہن کمیشن جس کا قیام کا مقصد بابری مسجد کی انہدامی کاروائی کی تحقیقات کرنا تھا ‘ نے اپنی رپورٹ پیش کی۔ جس کے بعد پارلیمنٹ میں ہنگامہ برپا ہوگیا کیونکہ رپورٹ میں بی جے پی کے سیاسی قائدین کو انہدامی کاروائی میں اہم رول ادا کرنے کا ذمہ دار ٹھرایاگیاتھا۔
سال2010میں الہ آباد ہائی کورٹ نے تنازعہ کے متعلق چار مقدمہ پر اپنافیصلہ سناتے ہوئے متنازعہ اراضی کو تین حصوں میں تقسیم کردیا۔
ایک حصہ رام للاجس کی نمائندگی ہندو مہاسبھا کررہاتھااور ایک حصہ اسلامک وقف بورڈاور ماباقی ایک حصہ نرموہی اکھاڑے کو دیدیاگیا ۔ مذکورہ فیصلہ ڈسمبر میں کیاگیا جس کے خلاف سنی وقف بورڈ اور اکھیل بھارتیہ ہندومہاسبھا نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔
سال 2011میں سپریم کورٹ نے اراضی کی تقسیم کے متعلق ہائی کورٹ کے حکم نامہ پر روک لگاتے ہوئے مذکورہ مقام پر جو ں کو توں موقف برقراررکھنے کے احکامات جاری کردئے۔
سال2014میں نریندر مودی کی زیرقیادت بی جے پی نے شاندار کامیابی حاصل کرتے ہوئے مرکز پر اپنا قبضہ جمالیا۔سال2015میں وی ایچ پی نے اعلان کیا کہ وہ ملک گیر سطح پر رام مندر کی تعمیر کے لئے پتھر جمع کریں گے۔ چھ ماہ بعد ماہ ڈسمبر میں متنازعہ مقام پر دوٹرک پتھر پہنچے۔
مہنت رتیا گوپال داس نے کہاکہ ہمیں مودی حکومت کی جانب سے مندر کی تعمیر کے لئے ہری جھنڈی دیکھائی گئی ہے۔ اترپردیش کی اکھیلیش یادو حکومت نے کہاکہ مندرکی تعمیر کے ایودھیا میں پتھر کی آمد ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہے.
مارچ2017‘ سپریم کورٹ نے کہاکہ اڈوانی اور دیگر کے خلاف1992بابری مسجد انہدام مقدمہ کے متعلق دائر کردہ مقدمہ کا احیاء عمل میں لائے جائے گا۔
مارچ 2017کے اترپردیش اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی بھاری اکثریت سے کامیابی۔ مارچ21سال2017سپریم کورٹ نے کہاکہ یہ ایک حساس مسئلہ ہے اس کو عدالت کے باہر بات چیت سے حل کیاجائے