مرکزی جمعیت اہل حدیت نے غیر متعلقہ عناصر کی مدا خلت او ر تصفیہ کی کوشش کے خلاف قراردمنظور کی
نئی دہلی۔بابری مسجد ۔ رام مندر تنازع کے حل کے لئے عدالت سے باہر تصفیہ کی حالیہ کوششوں کو غیر ضروری او رپریشان کن قراردیتے ہوئے مرکزی جمعیت اہل حدیث نے غیر متعلقہ عناصر کی مدخلت کرنے سے باز رہنے کی صلاح دیتے ہوئے کہاکہ جن لوگوں کا معاملہ سے کوئی لینا دینا نہیں ہے وہ بلاوجہہ کے اقدامات کرکے عوام او رملک کو اضطراب میں نہ ڈالیں۔
اس تعلق سے مرکزی جمعیت اہل حدیث نے کل ہند کانفرنس کے اختتام پر باضابطہ قرارداد منظور کی او رکہاکہ جمعیت بابری مسجد قضیہ میں عدالتی فیصلہ کو ایک بہترین وقابل قبول حل مانتی ہے۔
لہذا اس سلسلہ میں مسلم پرسنل لاء بورڈ اور متعلقہ فریقوں کے علاوہ کوئی ایسا اقدام نے کریں کرے جس سے عوام وملک الجھن میں پڑے۔ بابری مسجد کے معاملہ میں اختلاف رائے کے نقصان کونشانزد کرتے ہوئے تنظیم کی قرارداد میں کہاگیا کہ اختلاف آراء ونظریات کے باوجود باہمی محبت واحترام اسلامی عقیدہ ومنہج کا امتیاز ہے۔
اور اسی میں امت کی فوز فلاح قوت وشوکت اور عزت وسربلندی کا راز مضمر ہے۔ اس لیے اپیل ہے کہ وہ اہم احترم کو ملحوظ رکھیں‘ ایکد وسرے کے خلاف غلط بیانی اور طعن وتشفیع سے گریز کریں نیز کوئی ایسا بیان اورتقریر نہ کریں‘ جس سے ملی ملی اتحاد اور انسانی مفاد کو زک پہنچتی ہو اور آپس میں نفرت اور آپسی تنازع کو شہ ملتی ہو۔ واضح ہوکہ کل مرکزی جمعیت نے کانفرنس سے منظور شدہ قرارداد جاری کی۔
تنظیم کے ذریعہ منظور شدہ قراردادوں میںآسام کا مسئلہ بھی سامنے آیا جس میں جمعیت نے آسام میں شہریت کے معاملہ کو انسانی بنیادوں پر حل کیے جانے کی اپیل کرتے ہوئے سیاسی پارٹیوں سے مطالبہ کیا کہ اس معاملہ کو مذہبی رنگ نہ دیں۔
جو لوگ کئی دہائیوں سے وہاں رہ رہے ہیں ان کے بارے میں اس طرح کے فیصلے محض اس لئے لیے جارہے ہیں تاکہ مخصوص کمیونٹی کو سماجی وسیاسی طور پر بے اثر کردیا جائے۔
اس طرح کے فیصلے کسی بھی طرح ملک وملت کے مفاد میں نہیں ہیں‘ نیز اس مسئلہ کو سیاسی رنگ نہ دیں۔ جمعیت کے ترجمان نے بتایا کہ ہمارا یک قرارداد میں ملک کے مختلف صوبوں کی جیلوں میں بند مسلم نوجوانوں کی ضمانت پر رہائی اور ان کے مقدمات کے جلد از جلد تصفیہ کی اپیل بھی شامل ہے کہ جن نوجوانوں کو ملک کی فاضل عدالتوں نے باعزت بردی کردیا ہے ان کے نقصان کا معاوضہ دیاجائے۔
ملک کی مختلف عدالتوں سے مسلم نوجوانوں کا باعزت بری ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ان نوجوانوں کاملک مخالف سرگرمیوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
اس کے علاوہ ملکی مسائل کے تحت فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور وطن دوستی پرزوردیا۔ ملک میں برھتے ہوئے ہجومی تشدد کے رحجان پر اظہارتشویش کرتے ہوئے ارباب حل عقد سے مطالبہ کیاگیا کہ گاؤ تحفظ وغیر ہ کے نام پر تشدد میں ملوث لوگوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے ‘ کیونکہ امن وقانون کو برقرار رکھنا حکومتوں کی ذمہ داری ہے او رملک کا قانون کسی بھی جماعت اورفرد کو قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دیتا۔
اس جرم کے مرتکبین کے خلاف کاروائی کرکے یہ احساس دلایاجائے کہ ائین ہی برتر وبالا ہے جس کی پاسداری ہر شہری کی ذمہ داری ہے۔