ویسے تو ٹیلی ویژن کی ایجاد انسانوں کوصحت بخش تفریح فراہم کرنے کیلئے او ران کو موجودہ حالات سے باخبر رکھنے کی غرض سے ہوئی تھی او رابتدائی دنوں میں اس نے یہ رول خوب نبھایا ۔ ہم سب جب ٹی وی کے سامنے بیٹھتے تھے تو سارے دن کی تھکن او رکام کاج کا بوجھ اپنے آپ ہی ذہن سے ہٹ جاتا تھا ۔مگر جب اس ملک میں ۸۵۷؍ چینل ہیں اور مختلف زبانوں میں نیوز بلیٹن نشر کرنے والے دوسو سے زیادہ نیوز چینل موجود ہیں مگرعوام کا یہ حال ہے کہ نیوز چینل کھولنے کی ہمت نہیں ہوتی ۔کیونکہ نیوزچینل صبح اٹھ کر یہ طے کرتے ہیں کہ آج کس کی ٹانگ کھینچنا ہے ،کس کو ملک کا دشمن ثابت کرنا ہے ۔
پھر سب سے آسان طریقہ تلاش کیا جاتاہے او ریہ تلاش مسلمانوں پر جاکر ختم ہوتی ہے ۔کبھی مسلم عورتوں کو ، کبھی مسلم مردوں کو ، کبھی مسلمانوں کے تعلیمی او رفلاحی اداروں کو ،کبھی بابر کی آڑ میں ، کبھی خلجی کی آڑ میں ، کبھی دہشت گردی سے وابستہ ہوکر ، کبھی کسی ملا کی حرکتوں کو بہانہ بناکر ، کبھی طلاق ثلاثہ کی مخالفت کے نام پر ، کبھی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو جناح کے نام پر او رکبھی ملک سے وفاداری کا سوال اٹھاکر نیوز چینلس اپنی ٹی آر پی بڑھا رہی ہے ۔اور سارا سارا دن مباحثہ کے نام پر مسلمانو ں پر حملے کئے جاتے ہیں ۔
آج کل نیوز چینلس پر راضیہ ، شاذیہ ، شہناز ، مہناز او رگلناز نام کی خواتین کو طلاق ثلاثہ او رتعدد ازدواج کی مخالفت میں اتاری جارہی ہیں تو عابد ، زاہد ، ماجد ،کمال ، جمال او رلازوال حضرات شرعی عدالت کے قیام کے بارے میں اپنی گراں قدر رائے دے کر قوم و ملت کی خدمت میں مصروف ہیں ۔ہم تو سوچ رہے تھے کہ ۲۰۱۹ء میں شائد ہجومی تشدد انتخابی ایشو گا ۔بابری مسجد کے مسئلہ کو اٹھایا جائیگا ۔گاؤرکشکوں پر سے مقدمہ واپس لینے کی بات کیجائیگی ۔لیکن یہاں ہم خود ہی نئے نئے ایشوز کھود کھود کر نکال رہے ہیں ۔ایسے عالم میں ہم او رآپ بس اتنا ہی کرسکتے ہیں کہ ریموٹ کا استعمال کریں او رکوئی غیر ملکی چینل دیکھیں ۔