مودی کی ابائی ریاست سبھی 26حلقوں میں آج تیسرے مرحلے میں ووٹنگ چل رہی ہے ، لیکن اس سے قبل مودی نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بی جے پی کو پچھلے انتخابات کے مقابلے میں سیٹوں کے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا ۔
مودی نے ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرکے کہا تھا کہ ہم جیت تو رہے ہیں مگر سبھی 26سیٹیں اگر نہیں ملی تو مزہ نہیں آئے گا ، مودی کی اس تقریر سے صاف واضح ہورہا ہے کہ مودی کو اب پچھلی بار کی طرح امید نہیں ہے اور وہ ایک اعتبار سے نا امید ہے کہ انہیں خود انکے ابائی ریاست میں اکثریت ملنی نا ممکن نظر آرہی ہے ۔
مودی کے اس بیان سے سیاست میں کیا کچھ ہو رہا ہے اسکی حقیقت عوام کے سامنے گاآچکی ہے ، واضح رہے کہ ابھی گجرات میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے بی جے پی کو بری طرح ٹکر دی تھی اور بی جے پی بہت مشکل سے اپنا قلع بچا پائی تھی ۔ 2014کے بعد سے گجرات کی سیاست میں کئی تبدیلیاں آئی ہے جس کا اثر لوک سبھا انتخابات میں نظر آئے گا ۔ سب سے اہم اور بڑا واقعہ تو پٹیل طبقہ کی تحریک کا ہے ،جو اپنے لئے او بی سی درجہ کا مطالبہ کر رہا تھا ،2015میں ہاردک پٹیل کی قیادت میں اس تحریک نے بی جے پی کی حالت خراب کر دی تھی ۔ اب ہاردک نے کانگریس میں شمولیت اختیار کی ہے ۔
گجرات میں تقریبا ۲۱ فیصد پٹیل ووٹرس ہیں ، گجرات کے اسمبلی انتخابات میں بھی پٹیل طبقے نے کانگریس کی حمایت کی تھی اور اب اس کا اثر لوک سبھا انتخابات پر بھی پڑے گا ۔ گجرات میں 2014کے لوک سبھا انتخابات میں کانگریس کو 31فیصد ووٹ ملے تھے مگر اب ہوئے اسمبلی انتخابات میں 41فیصد ووٹ ملے ہیں ۔
اگر بی جے پی کے ووٹنگ فیصد کے بارے میں بات کی جائے تو 2014میں انکو 59فیصد ووٹ لوک سبھا کے انتخابات میں ملے تھے جو اسمبلی انتخابات میں گھٹ کر 49فیصد ہوگئے اگر اسمبلی انتخابات کو سامنے رکھتے ہو تجزیہ کریں تو بی جے پی کو کم از کم لوک سبھا کی 14سیٹوں کے نقصان ہونے کے امکانات ہیں ۔ اگر سچائی سے بات کریں تو پورے ملک کی طرح گجرات میں بھی کوئی مودی کی لہر نہیں ہے وہاں کی عوام بھی نوٹ بندی ،جی اس ٹی ،مہنگائی اور روزگار جیسے مدعوں سے پریشان ہیں ۔ اور خاص کر وہا ں پر پٹیل ریزوشن بھی اہم اشو ہے ،جو سب سے بھاری نظر اتا ہے ،کیونکہ ج۔گجرات میں پٹیل کسان بھی ہیں تاجر بھی ہیں اور ریزوشن جیسے اور بہت سے انکے مطالبات ہیں جو بی جے پی حکومت پورا نہیں کر رہی ہے ۔۔