ایم جے اکبر پر 23 سال قبل عصمت ریزی کا الزام

ہندوستان سے امریکہ منتقل جرنلسٹ کا واشنگٹن پوسٹ میں مضمون ’’تلخ یادوں کا انکشاف‘‘
واشنگٹن ۔ 2 نومبر (سیاست ڈاٹ کام) امریکہ میں ایک سرکردہ میڈیا ادارہ کی ایڈیٹر نے سابق مرکزی وزیر ایم جے اکبر پر 23 سال قبل ہندوستان میں عصمت ریزی کا الزام عائد کی ہے اور کہا ہیکہ اس ’’قابل و ذہین جرنلسٹ‘‘ نے ایک اخبار کے ایڈیٹرانچیف کی حیثیت سے اپنے عہدہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں (امریکی خاتون جرنلسٹ کو) ہوس کا نشانہ بنایا تھا۔ تاہم اکبر کے وکیل نے اس الزام کی تردید کی ہے۔ 67 سالہ ایم جے اکبر نے ہندوستان میں ’’می ٹو‘‘ مہم کے دوران اپنے خلاف عائد کردہ جنسی ہراسانی کے متعدد الزامات کے سبب وزیراعظم نریندر مودی کی کابینہ سے اکٹوبر میں استعفیٰ دیدیا تھا اور ایک شکایت کنندہ خاتون جرنلسٹ کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ بھی دائر کیا ہے۔ واشنگٹن میں واقع نیشنل پبلک ویڈیو میں چیف بزنس ایڈیٹر پلوی گوگوئی نے اب اکبر کے خلاف تازہ ترین الزامات عائد کی ہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع شدہ طویل مضمون میں پلوی گوگوئی نے ’’اپنی زندگی کی انتہائی خوفناک اور تلخ یادوں‘‘ کا تفصیلی طور پر احاطہ کیا ہے۔ تاہم اکبر کے ایک وکیل سندیپ کپور نے کہا کہ ’’میرے موکل نے کہا ہیکہ یہ الزامات بالکل غلط ہیں اور ان کی تردید کی جاتی ہے‘‘۔ پلوی گوگوئی نے لکھا کہ ایم جے اکبر اس وقت ’’ایشیئن ایج‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔ ایک انتہائی بہترین، ذہین و باصلاحیت جرنلسٹ تو تھے لیکن انہیں اپنے جال میں پھانسنے کیلئے عہدہ کا استعمال کیا کرتے تھے۔ پلوی نے لکھا کہ ’’جو کچھ میں آپ کو بتانے جارہی ہوں وہ میری زندگی کی انتہائی تلخ و تکلیف دہ یادیں ہیں جو میں 23 برس سے اٹھائے رکھی ہوں‘‘۔ اس مضمون میں پلوی نے تفصیلی طور پر وہ واقعات بیان کئے ہیں کہ اکبر نے کس طرح کئی سال تک جسمانی و ذہنی طور پر ہراساں کیا تھا جب وہ نئی دہلی تا ممبئی اور ممبئی تا جئے پور اور جئے پور تا لندن اسٹیشن ایج میں کام کیا کرتی تھیں۔ گوگوئی نے کہا کہ 22 سال کی عمر میں وہ ایشیئن ایج سے وابستہ ہوئی تھی اور اکبر کی زیرنگرانی کام کے دوران (اکبر) کی زبان پر عبور، جملہ بندی، الفاظ کی الٹ پھیر اور مہارتوں سے مرعوب و مسحور تھیں اور اس دوران اکبر کی بدکلامی و فحش گوئی بھی برداشت کیا کرتی تھیں۔ پلوی نے لکھا کہ اکبر نے کئی موقعوں پر زبردستی بوسہ لیا۔ ایک مرتبہ کسی مضمون پر گفت و شنید کے لئے ہوٹل طلب کیا اور عصمت ریزی کی کوشش کی۔ مزاحمت پر ملازمت سے برطرف کرنے کی دھمکی دی تھی۔ ’’ہوٹل کے کمرہ میں میں اس سے لڑتی رہی لیکن جسمانی طور پر وہ مجھ سے طاقتور تھے۔ میرے کپڑے پھاڑ دیئے اور میری عصمت ریزی کی‘‘ لیکن مارے شرم کے اس واقعہ کی وہ پولیس میں شکایت درج نہیں کرواسکی اور یہ بھی گمان تھا کہ مشہور و معروف بااثر جرنلسٹ کے خلاف ایسی شکایت پر کوئی یقین کرے گا؟ چنانچہ میں خود کو ہی موردالزام ٹھہراتی رہی۔