اصل دھارے میں واپسی پر ممکنہ مدد کی فراہمی کیلئے نوجوان کو فوج کی پیشکش
بھدرواہ ؍ جموں۔ 4 ستمبر (سیاست ڈاٹ کام) ایک سینئر فوجی عہدیدار نے کہا ہے کہ جموں و کشمیر کے ایک 29 سالہ ایم بی اے گریجویٹ نے ’’حزب المجاہدین‘‘ میں شمولیت اختیار کی ہے جس کے بعد فوج کو یہ تیقن دینا پڑا ہے کہ اگر وہ تشدد کا راستہ ترک کرتا ہے تو تمام ممکنہ مدد فراہم کی جائے گی۔ AK47 تھامے ہوئے ہارون حزبی کی تصویر حال ہی میں سوشیل میڈیا پر تیزی کے ساتھ گشت کرنے لگی تھی اور یہ اشارہ دیا گیا تھا کہ وہ ہفتہ کو اس دہشت گرد گروپ میں شامل ہوگیا ہے۔ وانی ضلع ڈوڈا کے علاقہ گھاٹ کا ساکن ہے جس کے پاس کاترا کے شری ماتا وائشنو دیوی یونیورسٹی کی بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری ہے۔ ہارون حزبی وانی کے خاندان میں واپسی کی دردمندانہ اپیل کی ہے۔ ان کی چاچی نے ایک ویڈیو پیغام جاری کرتے ہوئے کہا کہ ’’سب سے بڑا جہاد بزرگ ماں باپ کی خدمت کرنا ہے۔ دوسرے جہاد کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ ہم خوش ہیں۔ آپ کے والدین بیمار ہوگئے ہیں۔ آپ کی سخت ضرورت ہے۔ برائے مہربانی واپس آجاؤ‘‘۔ ہارون وانی کے چچا فاروق احمد وانی نے کہا کہ وہ تعلیم میں بہت اچھا تھا اور کسی دہشت گرد گروپ میں شمولیت کا پہلے کبھی کوئی اشارہ بھی نہیں دیا تھا۔ جموں و کشمیر کی ایک خانگی کمپنی میں کام کررہا تھا۔ ’’ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیںکہ اس کو کس نے اِس راستہ پر آنے کی ترغیب دی‘‘۔ ڈیلٹا فورسیس کے جنرل آفیسر کمانڈنگ میجر جنرل راجیو نندا نے اس صورتِ حال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’گزشتہ روز ہمیں معلوم ہوا کہ وانی ایک دہشت گرد گروپ میں شامل ہورہا ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ اچھا احساس باقی و برقرار رہے گا اور وہ (ہارون وانی) اصل دھارے میں واپس لوٹ آئے گا‘‘۔ فوجی افسر نے مزید کہا کہ ’’یہ نوجوان ایک تعلیم یافتہ خاندان سے تعلق رکھتا ہے اور انہیں (خاندان کو) کافی پریشانی میں ڈال دیا ہے۔ سوشیل میڈیا پر اُس کی بیمار والدہ اور دیگر ارکان خاندان کا ویڈیو دیکھ کر خود میں بھی دہل سا گیا ہوں جو اپنے بیٹے کی واپسی کی بھیک مانگ رہے ہیں کیونکہ اس کے ایک بھائی کی شادی اس ماہ کی 9 تاریخ کو مقرر ہے‘‘۔ ڈوڈا میں گزشتہ تین ماہ کے دوران دہشت گرد نیٹ ورک میں شامل ہونے والا یہ دوسرا نوجوان ہے۔ جولائی میں 25 سالہ عابد حسین بٹ ’’لشکر طیبہ‘‘ میں شامل ہوگیا تھا اور اس ماہ ضلع اننت ناگ میں سکیورٹی فورسیس کے ساتھ انکاؤنٹر میں ہلاک ہوگیا تھا۔ جنرل نندا نے اس واقعہ سے دیگر نوجوانوں کو متاثر ہونے کے اندیشوں کو مسترد کردیا اور کہا کہ یہ اکا دُکا نوعیت کا واقعہ ہے تاہم حالیہ واقعات پر ہم نظر رکھے ہوئے ہیں۔