بڑودھ۔ ریاست گجرات کے ضلع بڑودھ کی ایم ایس یونیورسٹی میں چندرا موہن نے پھر ایک مرتبہ بھونچال پیدا کردیا۔اپنے ماسٹرس کے فائنل سال کی پیش کش کے لئے تیارہ کردہ پینٹنگس کے 2007میں اس ایوارڈ جیتنے والے پینٹرس پر غیر جانبداری کا الزام عائد ہوا تھا۔
عیسیٰ مسیح اور درگا کے ’’ بیہودہ‘‘ تصوئیر پر مشتمل اس کی پینٹنگس کے خلاف ہندووں او رعیسائیوں دونوں نے احتجاج بھی کیاتھا۔چندرا موہن کی مئی14سال2007میں گرفتاری اور رہائی عمل میں ائی تھی۔ معاملہ ابھی تک رفع دفع نہیں ہوا ۔
چندرا موہن کو گجرات چھوڑ کر جانے کی اجازت نہیں ہے اور یونیورسٹی اس انہیں ڈگری دینے سے انکار کررہی ہے۔معاملہ کو حقائق کی روشنی میں نہیں دیکھاجارہا ہے اور چندرا موہن بے بس کردیاگیاہے
ریاست آندھرا پردیش کے ضلع ایسٹ گوداری میں منڈا پالی گاؤں کا ساکن چندرا موہن کی جدوجہد کم وسائل کی وجہہ سے آگے نہیں بڑھ رہی ہے اور اسکے پاس آمدنی کے ذرائع بھی محدود ہیں اس پر ستم ظریفی کہ وہ گجرات چھوڑ کر جابھی نہیں سکتا۔
پچھلے گیارہ سالوں سے یونیورسٹی چند را موہن کی ڈگری کو روک رکھا ہے جس کی وجہہ سے اس کا مستقبل داؤ پر ہے اور حالات مزیدابتر بھی ہوگئے ہیں۔
چندرا موہن نے تقریبا25درخواست اپنی ڈگری کے لئے یونیورسٹی کو پیش کی مگر ایک پر بھی سنوائی نہیں ہوئی۔ فبروری2سال2018کے روز چندرا موہن آگ لگانے والا مادہ لے کر یونیورسٹی میں داخل ہوگیا اور آگ لگانے کے بعد اس بات کو بھی قبول کیا ہے کہ اُس نے یہ کام کیا کیونکہ یونیورسٹی نے اس کو ایسا کرنے پر مجبور کیاہے۔
چندرا موہن کو سیاجی بڑودھ کے گنج پولیس اسٹیشن کے تحت گرفتار کرکے 3فبروری کے روز عدالت میں پیش کیا گیا۔
پہلے تو ایک آرٹسٹ کے طور پر اپنے ہنر کے ذریعہ خود کوپیش کرنے کاحق اس سے چھین لیاگیا ہے ‘پھر اس کی برہمی اس کو مبینہ طور پر مجرم بنانے پر مجبور کردی ہے کیونکہ اس کے ساتھ ہورہی قانونی کاروائی کا مقابلہ کرنے کے لئے چندرا موہن کے پاس پیسے بھی ندارد ہیں۔
مسترد کرنے اور برہمی کی وجہہ سے وہ ایک مرتبہ پھر ریاستی امتیازکا نشانہ بنا ۔ ان حالات میں ریاست یا خود کوختم کرنے یا پھر مجروم کی طرح زندگی گذار نے پر اس کو مجبور کردیاہے اس بات کا آپ ہی خود فیصلہ کریں۔