سعودی عرب پچھلے دنوں خواتین کی آزادی کو لے کر سرخیوں میں رہا ۔خواتین کے لئے وہاں نئی توقعات کے دروازے کھولے جارہے ہیں۔ولیعہد سلمان بن محمد اصلاحات کی گونج ساری دنیا میں سنائی دے رہی ہے۔ ایسے میں بین الاقوامی سطح پر دہشت گردی کے متعلق چل رہی بحث بھی کڑے رخ اختیار کرتے ہوئے دیکھائی دے رہی ہے۔امریکہ او رسعودی عرب ایران کے خلاف مورچہ بندی کرچکے ہیں
۔ ان حالات میں سعودی عرب کے سفیر معین نئی دہلی سعودبن محمد الساطی نے اپنے طویل انٹرویو میں اپنے ملک کے علاوہ بھارت سعودی رشتوں کے متعلق بھی تفصیلی روشنی ڈالی۔
بھارت اور سعودی عرب کے رشتوں کو آج آپ کہاں دیکھتے ہیں؟ اس کا مستقبل کیاہے؟
بھارت سعودی عرب کے رشتوں کی شروعات کی بات کریں تو آپ کو تاریخ کے قدیم اوراق سے گذرنا ہوگا۔ تبھی آپ سمجھ سکیں گے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جڑیں کتنی مضبوط ہیں۔ تہذیب اور زبان سب جگہ اس کا اثر دیکھا جاسکتا ہے۔ سعودی عرب میں الہندی سب سے عام نام ہے
۔آج تیس لاکھ سے زائد بھارتی ہمارے دیش میں ہیں۔کوئی ایسا شعبہ نہیں جہاں پر وہ کام نہیں کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ حال کے دنوں میں حکومتوں نے بھی جس طرح کی گرمجوشی کے ساتھ رشتوں کو آگے بڑھانے کی پہل کی ہے ‘ اس سے ہمارے رشتہ نئے راہ پر جاتے ہیں۔
حال کے دنوں میں سعودی عرب کی حکومت خواتین کو ان کے حقوق دینے کے معاملات میں سرخیوں میں رہا ہے۔ اس پہل کے ذریعہ کیاپیغام ہے؟۔
ایسا نہیں ہے کہ ہم نے ایک دن میںیہ اچانک ایسا کرلیاہے۔ اس کا بنیاد کئی سالوں سے پڑ رہی تھی۔
سماج میں خواتین کومساوات اور اپنے حساب سے زندگی گذارنے کی آزادی ہماری اولین ترجیحات میں رہی ہے۔ اب یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا اقدامات ساری دنیادیکھ رہی ہے۔لیکن ہم یہاں پر رکنے والے نہیں ہیں۔
ویژن 2030کے تحت اگلے بارہ سالوں میں سعودی عرب کی خواتین سارے ملک کے سامنے اپنی آزادی کی نظر پیش کریں گی۔اگر ابھی دیکھیں تو ہماری اسمبلی میں تیس فیصد خواتین ہیں۔
تعلیمی شعبہ جات میں مردوں سے زیادہ خواتین ہیں۔ کسی بھی شعبہ کو دیکھ لیں‘ ان دنوں خواتین ملازمین کی تعداد مردوں کے برابر دیکھیں گے۔خانگی ملازمتوں میں خواتین کا تقررات کا عمل 130فیصد سے زائد ہے۔
بیرونی ملک میں تعلیم حاصل کرنے والی خواتین میں بھی تیس فیصد کا خواتین ہیں۔ہماری یہی کوشش ہے کہ اگلے بارہ سالوں میں جہاں کہیں بھی رکاوٹیں ہوں‘ اسی پوری طرح توڑ دینا ہے۔
سعودی عرب جانے والوں میں زیادہ ہندوستانی حج مسافر ہوتے ہیں۔ حال کے دنوں میں ان کے لئے سہولتوں میں اضافہ کے لئے کوئی پہل؟
حج پر آنے والے بیرونی عازمین میں زیادہ تر ہندوستان سے آنے والے لوگ ہوتے ہیں۔
سالانہ تین کروڑ سے زائد لوگ اس مقدس فریضہ کی ادائی کے لئے آتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہماری حکومت انہیں زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کے ایجنڈے پر کام کررہی ہے۔مجوزہ ویژن 2030کا یہ بھی ایک اہم حصہ ہے۔ہماری تمام تر توجہہ مکہ او رمدینہ کے انفرسٹچکر میں مزید بہتری لانے پر ہے۔
پہلے مکہ او رمدینہ کے درمیان سفر کرنے میں سات گھنٹے درکا ر تھے۔اب ہم نے ایسا سڑکیں بنادی ہیں کہ یہ سفر دو گھنٹوں میں مکمل ہوجائے گا۔توقف اور آنے جانے سے لے کر تمام سہولتوں پر ہم کام کررہے ہیں۔ اس کا اثر بہت جلد دیکھنے کو ملے گا۔
دہشت گرد ہندوستان کی بڑی تشویش ہے۔ جس طرح کچھ مخصوص ممالک اس کا تجربہ کرتے ہیں ‘ اس سے حالات بگڑنے کی خدشات ہمیشہ بنے رہتے ہیں۔
سعودی عرب دہشت گردی کے خلاف اہم لڑائی میں خود کو کہاں پاتا ہے؟
آپ نے جب دہشت گردی کی بات کی تو ہمیںیہ کہنے میں کوئی دقعت نہیں ہے کہ ایران آج سارے دنیاکے لئے خطرہ بنا ہوا ہے۔نہ صرف ایران دہشت گرد ی کو فروغ دے رہا ہے بلکہ ہمارے داخلی معاملات میں بھی مداخلت کررہا ہے۔ ہم ایسی کوشش کو نہ برداشت کریں گے اور نہ ایسا ہونے دیں گے۔
بھارت او رسعودی عرب دونوں ممالک دہشت گردی کے متاثر ہیں اور ہم نے ایسے کرنے والوں کی پہچان بھی کی ہے۔ دونوں دیس ملکر ساتھ لڑیں گے۔
پٹرول کی بڑھتی قیمت بھی بین الاقوامی تشوش کی موضوع ہے۔ ایران پر پابندی عائد کرنے کے بعد اس میں اور تیزی آسکتے ہے۔ کیاسعودی عرب ان حالات سے نمٹنے کے لئے تیار ہے۔
خام تیل کی درآمد میں ہم کوئی کمی نہ ہونے دیں گے۔ ہم کوشش کریں گے اس پابندی کاکوئی اثر نہ ہواور ہمیں پورا یقین ہے کہ کوئی اثر نہیں ہوگا۔
کہاجارہا ہے کہ سعودی عرب کی نئی اسکیم کا اثر وہاں پر مقیم ہندوستانیوں پر پڑیگا ۔ یہ تشویش کس قدر واجبی ہے؟
ہم نے ایک منصوبہ بنایا ہے‘ جس کے تحت کام کاج کو ایک منظیم اور موثر شکل دی جائے گی۔ لیکن اس کااثر کسی کی ملازمت پر نہیں پڑیگا۔
آپ بھار ت سے ہی اعداد وشمار دیکھ لیں۔ اس اسکیم کے لاگو ہونے کے بعد بھی بھارتی انے والے ملازمین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جو اس قیاس کو غلط ثابت کرتا ہے